ہوا اُکھڑ گئی
مشرقی پاکستان میں ہماری نااہلی کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام نے جہاں پاکستان کو بہت کمزور کیا وہیں بھارت کی ساکھ میں ایک گونہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بھارت کی قیادت نے اس کے بعد اپنے ملک کے لیے پے در پے اقدامات کر کے اپنی اُبھرتی ساکھ کو سہارا دیا۔ انڈسٹریل بیس کو وسیع کیا، اکانومی پر توجہ دی۔ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے بے شمار اقدامات کیے، ایک بڑی فوج تیار کی۔ انٹیلی جنس کو اہمیت دی۔ نیوکلئر سب میرین بحرِ ہند میں لاکر پانیوں پر اپنی برتری کے لیے کوشش کی اور ساتھ ہی روس سے جدید ترین SU30 لڑاکا طیارے خرید کر اپنی فضائیہ میں شامل کیے۔
سابق بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے یورپ اور امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے اور شائننگ انڈیا کا نعرہ دے کر ساری دنیا کی نظریں بھارت کی جانب مبذول کرا دیں۔ ادھر بھارتی آئی ٹی سیکٹر نے تو کمال ہی کر دیا۔ اس سیکٹر نے بہترین آئی ٹی پروفیشنل پیدا کر کے دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی قیادت سنبھال لی۔
مودی سرکار کے آتے آتے بھارت کی پذیرائی وسیع پیمانے پر شروع ہو چکی تھی۔ اقوام کی زندگی ایک وِیل آف فائر کی طرح ہوتی ہے۔ اوپر کی طرف سفر بڑا مشکل لیکن اوپر ٹھہرنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر ہر قدم اُٹھانا ہوتا ہے ورنہ ڈھلوان پر سے نیچے جانے میں دیر نہیں لگتی۔ مودی کو ایک بنی بنائی قوم اور ابھرتی معیشت مل گئی۔ مودی سمجھ بیٹھا کہ وہ اب جو بھی کرے گاکامیابی اس کے قدم چومے گی۔
امریکا، یورپ، اسرائیل اور روس تو پہلے ہی بھارت کے ہمنوا بنے ہوئے تھے لیکن پچھلے چند سالوں میں مشرقِ وسطیٰ نے بھی اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر بھارت کے غبارے میں بہت ہوا بھر دی۔ سعودی عرب نے وزیرِ اعظم مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈز سے نوازا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی پیچھے نہ رہے۔ اس پذیرائی نے مودی کو بھارت میں ہیرو بنا ڈالا کیونکہ تقسیم کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھارتی رہنما کی ایسی پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ سفارتی سطح پر یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ بھارتی مارکیٹ نے عربوں کو اپنی طرف کھینچا اور سعودی ولی عہد نے ارب ہا ڈالر کی انویسٹمنٹ کر ڈالی۔
بھارت نے کامیابیوں پر کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے مودی کو دوسری مدت کے لیے منتخب کر لیا۔ مودی نے دوبارہ منتخب ہوتے ہی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر ڈالی اور ساتھ ہی لداخ کو ایک وفاقی اکائی بنا ڈالا۔ لداخ جب تک جموں و کشمیر کے ساتھ تھا اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی اس وقت تک یہ سارا علاقہ بین الاقوامی قانون کی نگاہ میں ایک ایسا متنازعہ علاقہ تھا جس کا فیصلہ فریقین کی رضا مندی سے ہونا تھا۔ لداخ جب یکطرفہ طور پر ایک بھارتی وفاقی اکائی بن گیا تو ساری صورتحال چین کے لیے ایک چیلنج بن گئی۔
چین اور بھارت کی سرحد جموں و کشمیر سے لے کر سکم تک کوئی 3488کلومیٹر طویل ہے۔ بھارت اس ساری سرحد کو غیر متنازعہ اور بین الاقوامی سرحد منوانا چاہتا ہے۔ چین کاموقف اس سے مختلف ہے۔ چین 3488 کلو میٹر سرحد میں سے صرف کوئی ایک ہزار کلومیٹر سر حد کو غیر متنازعہ جب کہ باقی ساری سرحد کو متنازعہ قرار دیتا ہے۔
بین الاقوامی پذیرائی۔ بھوٹان کو طفیلی ریاست بنانے اور سکم کی آزاد حیثیت ختم کر کے بھارت کی 22ویں ریاست بنانے کے بعد بھارتی زعما اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ وہ اتنی طاقت ور ریاست بن چکے ہیں جس کے سامنے ہر دوسری ریاست کو جھکنا ہو گا۔
بھارت کی ابھرتی پروفائل کو دیکھتے ہوئے امریکا نے اسے چین کے مدِ مقابل ریاست گردانتے ہوئے چین کو روکنے کے لیے منتخب کر لیا۔ یہ کہا گیا کہ بھارت چین کا کاؤنٹر ویٹ counter weightہے۔ بھارت نے بھی سوچا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کا ساتھ دینے سے اس کے سارے مفادات کا تحفظ ہو سکتا ہے اس لیے اس نے بخوشی اپنا نیا کردار قبول کر لیا۔ چینی قیادت بہت ہی حوصلہ مند اور دور اندیش رہی ہے۔ وہ برطانیہ سے ہانگ کانگ اور مناکو بزور ہتھیار لے سکتے تھے لیکن انھوں نے معاہدہ ختم ہونے کا انتظار کیا۔ وہ تائیوان کو بھی بزور لے سکتے ہیں لیکن حوصلے اور صبر سے کام لے رہے ہیں۔
جب آپ اُٹھ رہے ہوں تو ایک ہلکے سے دھکے سے گرائے جا سکتے ہیں لیکن جب اُٹھ کر پاؤں جما کر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو گرانے کے لیے آپ کی قوت سے بڑی قوت درکار ہوتی ہے، چین پوری دفاعی اور معاشی قوت کے ساتھ پاؤں جما کر کھڑا ہو چکا ہے جب کہ بھارت کی معیشت پچھلے دو سالوں سے تیزی سے روبہ زوال ہے۔ شائننگ انڈیا پر شام اتر چکی ہے۔
بھارت ابتدا سے ہی چین کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی یہ نہیں جان سکے کہ جس بھارت کو وہ چین کے مقابلے میں کاؤئنٹر ویٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں یہ وہ مہابھارت نہیں ہے۔ یہ صرف اپنے چھوٹے پڑوسی ممالک پر دھونس جما سکتا ہے۔ پچھلے سال فروری میں بھارتی فضائیہ کی پاکستان کے خلاف مہم جوئی اور کامیاب پاکستانی جواب نے بھی صورتحال واضح کر دی ہے۔ چینیوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ بھارت کتنے پانی میں ہے۔ چین کی حمایت پا کر نیپال بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ سامنے لے آیا ہے۔ سری لنکا اور چین بہت قریب ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکا طالبان معاہدے میں بھارت کہیں نظر نہیں آیا۔ دنیا پر بھارت کی اصلی حیثیت مزید واضح کرنے کے لیے چین نے لداخ کے علاقے میں فوجی کارروائی کی چونکہ اس ساری سرحد کو چین بین الاقوامی سرحد نہیں مانتا۔ اسی تناظر میں فوجی کارروائی کرتے ہوئے چین نے بھارتی دستوں کی خوب درگت بھی بنائی اور بھارت کے مبینہ علاقے میں داخل ہو کر چند چوکیاں بھی قائم کر لیں۔
45سال کے بعد بھارت چین جھڑپ میں بہت سی بھارتی فوجی لاشیں اُٹھیں۔ یہ یقینی ہے کہ چین اس پہاڑی علاقے میں کبھی جنگ نہیں چاہے گا لیکن اس نے بہت کامیابی سے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ بھارت کو چین کا کاؤنٹر ویٹ بنانے والے سمجھ لیں کہ اس کاغذی گھوڑے پر بازی نہیں جیتی جا سکتی۔ مہا بھارت بننے سے پہلے ہی بھارتی ہوا اکھڑ چکی ہے۔