Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Abdul Hameed/
  3. Coronavirus Ke Khilaf Jung Jeetni Hai

Coronavirus Ke Khilaf Jung Jeetni Hai

کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنی ہے

سخت سردی کے بعد موسم انگڑائی لے رہا تھا۔ زمین سبز چادر اوڑھ رہی تھی۔ پھولوں کے پودے اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن میں ملبوس ہوتے جا رہے تھے۔

ہمارے پیارے وطن کے یومِ جمہوریہ کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے مسلح افواج اپنی پریڈ کی تیاری میں ہمہ تن مصروف تھیں کہ ایسے میں چین کے شہر ووہان سے کورونا وائرس کا غلغلہ بلند ہوا اورآ ناً فاناً ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ موت کے مہیب سائے چاروں طرف چھا گئے۔ لاک ڈاؤن اور آئیسولیشن کے چلن میں تنہائی اور ویرانی نے ڈیرے ڈال دئے۔ اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں، کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلنی بند ہو گئیں، مارکیٹیں ویران ہو گئیں۔ زندگی کی رفتار تھم کر رہ گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے کورونا وائرس کی وباء نے ایک عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس وبا کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ اس وائرس کی ابھی تک کوئی دوا موجود نہیں ہے۔ اینٹی بائیوٹک دوائیں بیکٹیریا جراثیم کے خلاف تو اثر پذیر ہوتی ہیں لیکن وائرس کے خلاف نہیں۔ چونکہ اس وبا کی کوئی دوا نہیں اس لیے یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے جسم کے امیون سسٹمimmune system) (کو مضبوط کرے اور وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرے جن کا چرچا کیا جا رہا ہے تا کہ اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھا جا سکے اور دوسروں کو بھی بچایا جا سکے۔ سب سے موئثر اور اچھی تدبیر اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دو سے تین ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن او آئیسو لیٹ کرنا ہے۔

کورونا وائرس متاثرہ فرد سے دوسرے افراد میں منتقل ہوتا ہے اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ایک متاثرہ شخص سے دو سے تین افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی کروcurve بہت تیزی سے اوپر جاتی ہے جس کو بہت سمجھ داری سے فلیٹ یعنی سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم لوگ دو سے تین ہفتے اپنے آپ کو گھروں میں محفوظ کر لیں تو یہ curve تیزی سے اوپر جانے کے بجائے، سیدھی لائن میں آ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہاتھ ملانا اور گلے لگانا بہت عام ہے جب کہ ہمارے دین میں سلام میں پہل کرنا اور سلام کا ویسا ہی یا اچھا جواب دینے کا حکم ہے باقی سارے شعائر ہمارے معاشرے کی پیدا کردہ عادات و اطوارہیں جوخوبصورت ہیں لیکن دین نہیں۔ کورونا وائرس بڑی عمر والے افراد جن کی کوئی میڈیکل کنڈیشن ہو اُن کے لیے زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کا بہت زیادہ خیال رکھیں پرجہاں تک ہو سکے اور جب تک یہ وبا ختم نہیں ہو جاتی معمر افراد کوگلے لگانے سے خاص طور پر اجتناب برتیں۔ بزرگوں کا بھلا اسی میں ہے۔

عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی بقائے شہر ہے اب شہر بند ہونے میں۔

امیون سسٹم مضبوط اور توانا بنانے کی کوشش از حد ضروری ہے۔ immunity بڑھانے کے لیے پرو بیوٹک probioticکا استعمال فائدہ مند ہے پروبیوٹک میں probiotic، lacto bacillius planterum، Bifido bacterium Lactis، Lacto bacillius rha mnosusوغیرہ کا استعمال اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے کیا جا سکتا ہے تاکہ immunity کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ جسم میں زنک کی کمی سے امیونٹی کم ہو جاتی ہے۔ اگر روزانہ کی بنیاد پر 25 mgتک زنک کی خوراک لے لی جائے تو امیونٹی بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وٹامن سی کا امیونٹی بڑھانے میں اہم کردار ہے لیکن اس کا خیال رہے کہ وٹامن سی کی روزانہ خوراک 200 mg سے زیادہ نہ ہونے پائے، وٹا من ڈی بھی امیونٹی بڑھانے میں مددگار ہوتی ہے۔ روزانہ چالیس منٹ تک اپنے جسم کو دھوپ لگوانا بہت فائدہ مند ہے۔ لوبیا، مشروم، مچھلی اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔ لہسنgarlik کا استعمال عام دنوں کے مقابلے میں دوگنا کر دیں۔ ادرک کا ذرا سا گرم پانی ضرور پیتے رہیں۔ چند منٹ کا مراقبہ immune systemکو بہت تقویت دیتا ہے۔ کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ جسم میں بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت زیادہ سے زیادہ ہو۔

قارئینِ کرام اب تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وبا سے 80سال سے اوپر کے متاثرہ افراد میں سے 22فیصد کے قریب لوگ لقمہء اجل بن گئے ہیں۔ اسی طرح ستر سے اوپر کی عمر کے متاثرہ افراد میں سے 8فیصد جان ہار رہے ہیں۔ ساٹھ سال سے اوپر عمر کے افراد 3.6فیصد کی شرح سے لقمہء اجل بنے ہیں۔ نوجوانوں میں یہ شرح ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین اس وباء سے بہت کم متاثر ہوئی ہیں۔ اگر آپ اپنے ارد گرد پتہ کریں تو یہ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ شاید ہی کوئی خاتون متاثر ہوئی ہو، اس کی ایک وجہ تو خواتین کا گھروں سے بہت کم نکلنا ہے کیونکہ تھوڑی سی خواتین ہی ملازمت اختیار کی ہوئی ہیں۔ ایک دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا immune systemمردوں کے مقابلے میں بہتر اور قدرے مضبوط ہو۔ واﷲ اعلم۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک اسٹڈی، جرمن چانسلر انجیلا مُرکل اور اسرائیل کے وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس اپنے خاتمے سے پہلے دنیا کی40سے 70 فیصد آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ یہ بہت ہی خطرناک پیش گوئی ہے۔ پاکستان کی 22کروڑ آبادی ہے اگر 70فیصد نہیں بلکہ صرف 40فیصد آبادی لپیٹ میں آتی ہے تو یہ بہت بڑی تعداد بن جائے گی غالباً پچاس لاکھ سے اوپر افراد وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے 20فیصد کو اسپتال داخل ہونا پڑے گا اور 5فیصد کو ونٹی لیٹر کی ضرورت ہو گی۔ ہم خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کو کتنے اسپتال اور کتنے بستر درکار ہوں گے۔ اٹلی ہمارے ملک کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ ہے۔ لیکن اس وبا نے اٹلی والوں کو اتنا عا جز کر دیا کہ ان کے وزیرِ اعظم کو کہنا پڑا کہ زمین پر پائے جانے والے سارے ذرایع کم پڑ گئے ہیں اور اب ہم آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پمز کے ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرنس کر کے بتایا کہ پمز آئیسولیشن وارڈ میں کل دس بستر ہیں اور دو وینٹی لیٹر۔ اگر یہ اسلا م آباد کے سب سے بڑے اسپتال کی حالت ہے تو آنے والے انتہائی مشکل وقت میں جب کہ وبا پھیل چکی ہو گی ایک بھیانک تصویر ابھرتی نظر آتی ہے۔ متاثرہ افراد میں سے وہ جن کی آنکھیں ابدی نیند سو جاتی ہیں اُن کے پیارے، اُن کے رشتے دار ان کی میت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ میت کے لواحقین، میت کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے، میت کو کندھا بھی نہیں دے سکتے۔

کیا اس صورتحال میں ہمارا رسپانس مناسب ہے۔ ہمارا اب تک رسپانس ناکافی اور آہستا نظر آتا ہے، پچھلے جمعہ کے دن پمز اسلام آباد کی آئیسولیشن وارڈ سے دو مریض غائب ہو گئے، دو گھنٹے بعد واپس لوٹے اور بتایا کہ جمعہ پڑھنے گئے تھے۔ لاہور میں ایک مسجد کے امام نے اپنے مقتدی حضرات کو معانقہ کرنے کا کہا۔ کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والوں کا رش اور ہڑبونگ دیکھیں تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان مسافروں میں سے کتنے متاثرہ ہوں گے اور یہ کیا مصیبت پھیلانے جا رہے ہیں۔ مسجدِ بلال اسلا م آباد بارہ کہو میں دس تبلیغی جماعت والے گھر گھر گشت پر رہے جب کہ ان میں سے پانچ کورونا وائرس کیرئیر تھے۔ یہ انتہائی افسوسناک رسپانس ہے۔

یہ بہت ہی مشکل وقت ہے۔ خدا کرے ہم مشکل لیکن صحیح فیصلے کریں۔ خوش قسمتی سے ہماری 65فیصد آبادی جوان ہے، جوانوں میں قوتِ مدافعت زور پر ہوتی ہے۔ ہم نے بارہا ایمرجنسی میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسی قوم ہونے کا ثبوت دیا، ہمارے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے قابلِ فخر کام کیا ہے، ان کے جذبے اور ہمت کو سلام۔ آئیں دو تین ہفتے کے لیے گھر پر رہ کر اس وبا کو شکست دے دیں۔ ہم انشااﷲ یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔ Stay at home، stay safe.Allah be with you

Check Also

Dard Dil Ki Qeemat

By Shahzad Malik