چینی صدر کا دورہ بھارت
چین کے صدر جناب شی جی پنگ 2، 1اکتوبرکو ممکنہ طور پر بھارت کا دورہ کریں گے اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے ساتھ دوسری غیر رسمی سر براہی میٹنگ میں شریک ہوں گے۔ یہ سربراہی اجلاس چنائی سے تھوڑی دور مہابلی پورم بندر گاہ میں منعقد ہو گا، مہا بلی پورم کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ چینی شہنشاہ وی، جن کا دورِحکومت 185 قبل مسیح سے لے کر 149 قبل مسیح تک رہا ہے۔ انھوں نے اپنے تاجروں کو اس بھارتی علاقے کے ساتھ تجاتی روابط بڑھانے کا حکم دیا تھا، اُس دور کے چینی سکے اس علاقے سے ملے ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان نے 7 اکتوبر سے چین کا دو روزہ دورہ کیا۔ صدر شی کے بھارتی دورے سے پہلے عمران خان کا یہ ایک ضروری اور بہت اہم تھا تاکہ دونوں ملکوں کی قیادت صلاح مشورہ کر سکیں اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے سکیں، اس دورے کے دوران سی پیک، ایم ایل ون باہمی تجارت اور دوسرے معاملات زیرِ بحث رہے، ذرایع بتاتے ہیں کہ چین سی پیک پر پیشرفت سے خوش نہیں ہے۔
چین کے تحفظات اور خدشات دور کرنے، سی پیک میں تیزی لانے کے لیے پاکستان نے سی پیک اتھارٹی قائم کر دی ہے۔ اسی طرح گوادر پورٹ فری زون کو ٹیکس مراعات دینے کی منظوری دیدی ہے۔ اس حوالے سے 7 اکتوبر کو دو آرڈیننس جاری کر دیے گئے ہیں۔ وزیرِاعظم پاکستان اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے۔ اتھارٹی سی پیک منصوبوں پر تیز ترین عملدرآمد یقینی بنائے گی۔ جنرل باجوہ بھی چین میں تھے اس طرح دونوں افواج کی اعلیٰ قیادت بھی مل بیٹھیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان افغانستان، کشمیر، دفاع، توانائی اور سرمایہ کاری پر بات چیت ہوئی۔
بھارت کے وزیرِاعظم مودی اور چین کے صدر جناب شی جی پنگ کے درمیان یہ دوسراغیر رسمی سربراہی اجلاس ہو رہا ہے اِ س سے پہلے اسی قسم کی ایک ملاقات ہوان ہو چین میں ہو چکی ہے۔ اِن ملاقاتوں کا پسِ منظر بہت دلچسپ ہے۔ تبت کے مغربی علاقے میں ڈوکلام ایک چھوٹا سا فنل funnel نما علاقہ ہے۔
اس 89 مربع علاقے پر چین اور بھوٹان دونوں کا دعویٰ ہے، اس پہاڑی علاقے کی عمومی اونچائی تیرہ ہزار پانچ سو فٹ ہے، یہاں ایک پہاڑی رِج Ridge ہے جو جام فری کہلاتی ہے چینی افواج اگر اس رِج پر آ جائیں تو وہ راستہ جس راستے سے بھارت اپنے شمال مشرقی علاقوں تک پہنچ سکتا ہے وہ خطرے میں پڑ سکتا ہے دوسرا سکم کی چوٹیوں پر بیٹھی بھارتی افواج خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
چینی ظاہری طور پر اس علاقے تک پہنچنے کے لیے وہاں ایک سڑک تعمیر کرنا چاہتے تھے اور اسی غرض سے وہ ڈوزر اور دوسری مشینری لے کر آ گئے۔ سڑک کی تعمیر سے چینی افواج کی آمدورفت اور پہنچ بہت بہتر ہو سکتی تھی ادھر بھارتی افواج زمینی صورتحال جوں کا توں یعنی اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں اور کسی بھی تبدیلی کو اپنے لیے خطرہ گردانتی تھیں اس لیے سڑک تعمیر کے لیے مشینری پہنچنے پر بھارتی افواج 16جون 2017ء علاقے میں اکٹھی ہو گئیں اور سڑک کی تعمیر میں مخل ہوئیں۔
اس بھارتی پیش قدمی سے کشیدگی پیدا ہو گئی جو بہتر دن جاری رہی۔ بھارتی فوج ایک سو پچاس میٹر چینی علاقے کے اندر چلی گئی جس سے صورتحال بگڑ گئی، کشیدگی شروع ہونے کے آٹھویں روز چینی حکومت نے اس کو پبلک کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر بھارتی افواج واپس نہ گئیں تو جنگ ہو سکتی ہے۔ چینیوں نے واضح کر دیا کہ جبتک بھارتی افواج علاقے کو خالی کر کے نکل نہیں جاتیں بات چیت نہیں ہو سکتی۔
دہلی میں خطرے کو بھانپتے ہوئے صورتحال کو فوراً نارمل کرنے پر اتفاق ہوا اِس دوران جولائی کے پہلے ہفتے میں نریندر مودی کی چینی صدر سے G 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر جرمنی میں ملاقات ہوئی۔ بھارتی وزیرِاعظم نے چینی صدر سے ایک تفصیلی ملاقات کی درخواست کی جو صدر شی نے منظور کر لی۔ سربراہ ملاقات سے پہلے دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان بیجنگ میں مذاکرات کے تیرہ دور ہوئے جس کے نتیجے میں بھارتی فوج نے پہلے علاقہ خالی کر دیا بعد میں چینی فوج بھی پیچھے ہٹ گئی۔ بھارت میں بہت واہ واہ ہوئی اور کہا گیا کہ چونکہ بھارت نے چین کو سڑک تعمیر نہیں کرنے دی اس لیے یہ بھارتی فوج کی بڑی کامیابی ہے۔
چین کی قیادت کی یہ خوبی ہے کہ وہ بہت دور کی سوچتے ہیں۔ مستقبل پر نظر رکھ کر پلاننگ کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ 1993ء اور 1996 ء کے دو معاہدے چین کو پابند کرتے تھے کہ وہ تبت کے سرحدی علاقے میں برابر کی تعداد میں فوجی رکھے گا۔ 2015ء میں چینی فوج نے اپنی بڑے پیمانے پر اصلاحات کے تحت فیصلہ کیا کہ تبت اور اس سے ملحقہ علاقے میں ایک بڑی فوج رکھے۔ چین نے اس لیے جان بوجھ کر ڈوکلام کے بہت ہی چھوٹے سے علاقے میں یہ ڈرامہ رچایا اور اس کشیدگی کی آڑ میں اپنے دو لاکھ فوجی علاقے میں پہنچا دیے۔
بھارت چین کی اس چال کو نہ سمجھ سکا اور ممکنہ جنگ سے ڈر کر مودی نے چینی صدر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ جب چین نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تو چین اور بھارت کے مابین اس سلسلے کی پہلی ملاقات چین میں ہوئی۔ ملاقات میں بھارت کی درخواست پر اسکو سالانہ کی بنیاد پر جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ شرقِ اوسط کی ایک میٹنگ میں مودی نے ایک بیان دیا کہ بھارت کسی بھی ملک کے ساتھ ملکر کسی دوسرے ملک کے خلاف گینگ اپ نہیں کر رہا۔
ان دنوں بھارتی افواج اروناچل پردیش میں 26اکتوبر تک جاری ایک بڑی مشق کر رہی ہیں۔ اس مشق میں کوئی 5000 فوجی حصہ لے رہے ہیں۔ اروناچل کے بارے میں چین کی رائے ہے کہ یہ جنوبی تبت ہے اور تبت اس کا کور ا یشو ہے۔ اس لیے بقول ٹائمز آف انڈیا چین اس فوجی مشق سے آسودہ نہیں ہے۔ اخبار کے مطابق چینی غور کر رہے ہیں کہ آیا اس موقع پرصدر شی کا یہ دورہ ہونا چاہیے یا نہیں۔
پہلی غیر رسمی ملاقات کے لیے بھارت خواہش مند تھا اس لیے اس کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ ملاقات سے پہلے دلائی لامہ کی جلاوطنی کو ساٹھ سال مکمل ہونے پر ایک تو مذہبی ہم آہنگی عبادت ہونی تھی اور دوسرا دلائی لامہ کا شکریہ ادا کیا جانا تھا کہ انھوں نے پچھلے ساٹھ سال بھارت کی زمین کو عزت بخشی لیکن چونکہ چین دلائی لامہ کے سلسلے میں بہت حساس ہے اس لیے شی مودی ملاقات سے پہلے یہ دونوں ایونٹ کینسل کر دیے گئے لیکن اب بھارت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے بھارتی کہہ رہے ہیں کہ بہت پہلے سے پلان کی گئی یہ مشق کینسل نہیں کی جا سکتی۔
5 اگست کو بھارت نے ایک بدنامِ زمانہ اقدام اُٹھاتے ہوئے بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی اہمیت کی حامل شقیں نکال دیں۔ یہ Revocation Act، 31 اکتوبر کو لاگو ہو جائے گا اور لداخ ایک یونین علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال لداخ اور چین کے درمیان متفقہ بارڈر نہیں ہے۔
لداخ یونین ٹیرے ٹری پیدا ہونے سے چین لداخ سرحد بھی پیدا ہو جائے گی جو چین کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ 1959 ء میں جواہر لال نہرو نے اس وقت کے چینی وزیرِاعظم جناب چواین لائی کو متعدد خطوط لکھے کہ 1842ء میں شہنشاہ چین، کشمیری حکمران اورلاسہ کے گرُو کے درمیان ہونے والے معاھدہ کے مطابق سرحد صاف طور پر موجود ہے لیکن چین نے بھارت کے اس موُقف کو بالکل نہیں مانا۔
صدر شی بھارت کے دورے کے دوران اگر بھارتی وزیرِاعظم کے منہ پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ چین کو بھارت کا پانچ اگست کا اقدام منظور نہیں تو مودی کے لیے یہ بڑی Embarassement ہو سکتی ہے۔ کشمیر کی صورتحال، لداخ کی سرحد کا پیدا ہو جانا اور اروناچل پردیش میں جاری فوجی مشق ایسے معاملات ہیں جن کی موجودگی میں صدر شی کا مجوزہ دورہُ بھارت مشکل اور بڑی اہمیت کا حامل ہو گا۔