اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں خطاب
وزیرِاعظم عمران خان کا امریکا کا دوسرا دورہ جاری ہے، اِس دورے کا بُنیادی مقصد اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس میں جنرل اسمبلی سے خطاب ہے، جنرل اسمبلی سے کسی بھی رہنما کا خطاب یوں تو ایک رسمی سی بات ہے لیکن یہ اس حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے کہ یہ کسی بھی ملک کا سرکاری بیا نیہ اور پالیسی بیان ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی بہت اہم ہوتا ہے کہ آیا اِس خطاب کو سننے کے لیے دوسرے سربراہانِ مملکت نے اپنا وقت دیا، وہاں موجود رہے یا دوسرے درجے کی قیادت یعنی وزراء خارجہ وغیرہ نے سنا یا پھر صدور، وزراء اعظم اور وزرائے خارجہ میں سے اکثر نے کوئی توجہ نہیں دی اور ڈپلومیٹک اسٹاف میں سے کسی نے notes لینے کے لیے اپنے آپ کو موجود رکھا، یہ تو ہمیں اُسی وقت پتہ لگے گا جب خطاب ہو گا کہ کتنے اور کس درجے کے رہنماؤں نے ہمارے وزیرِاعظم کے خطاب کو سُنا۔ وزیرِاعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے بھارتی وزیرِاعظم بول چکے ہوں گے۔
مودی کے ہوسٹن جلسے میں تقریر کا متن بھی موجود ہو گا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو چکی ہے اسی طرح باقی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہو چکی ہوں گی اِن سب کو سامنے رکھ کر جناب عمران خان اور اُن کی ٹیم اس اہم خطاب کی نوک پلک درست کر کے ایک ایسا خطاب ترتیب دے سکتے ہیں جو دُنیا کی رائے کو پاکستانی مؤقف کے قریب لا سکے۔ کشمیر کے مسئلے کو کُچھ اس انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی اس پر توجہ دے اور سُننے والوں کے دلوں کے تاروں میں اِرتعاش پیدا کر سکے۔ اس خطاب میں متن جتنا اہم ہے اس سے بھی زیادہ اہم وہ اندازِ بیان ہو گا جو دلوں میں اُتر جائے۔ جناب عمران خان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اُن کو پسند کیا جاتا ہے ان کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔
یہ بھی بہت اہم ہو گا کہ وہ اپنی تقریر کے متن پر جمے رہیں اور فی البدیہ نہ بولنا شروع کر دیں، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کشمیر کو فوکس کرتے ہوئے کشمیر کے قانونی، اخلاقی پہلووں اور انسانی حقوق سے وابستہ مسائل کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتے ہوئے انڈو پاک لڑائی دکھانے سے گریز کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں وہ انسانی المیہ جنم لے چکا ہے کہ اگر اس کو مؤثر انداز میں سامنے لایا جائے تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
خدا کرے یہ خطاب پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں عالمی رائے عامہ بنانے میں مددگار ثابت ہو۔ وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے اس دورے کے دوران بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بھی امریکا میں موجود ہیں اور اُنھوں نے سلی کون ویلی، میڈیسن اسکوائر کے بعد ہوسٹن میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ مودی کا یہ جلسہ قومی سطح پر ہمیں جگانے کے لیے کافی ہے۔
اس اجتماع میں بھارتی وزیرِاعظم کا صدر ٹرمپ اور ٹیکساس کے گورنر کے ساتھ پچیس گورنروں اور سینٹروں کو وہاں لے آنا ایک بہت بڑی کامیابی اور بڑھتی بھارتی ساکھ کی گواہی ہے۔ یہ کامیاب جلسہ اور اس میں صدر ٹرمپ کا مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اجتماع میں داخل ہونا بھارت کی کامیابی لیکن ہمارے لیے لمحہء فکریہ ہے۔ جلسے میں مودی نے پاکستان کو للکارتے ہوئے فیصلہ کن وار کرنے کی دھمکی دے ڈالی اسی دوران بھارتی آرمی چیف نے صرف ایبٹ آباد ہی نہیں بلکہ سارے پاکستان کو نشانہ بنانے کی بات کی۔
مودی نے اب تک جو کہا ہے وہ اُس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اس لیے مودی نے جو فیصلہ کن ضرب لگانے کی بات کی ہے اس کو خالی خولی دھمکی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ سنجیدہ لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں، ہوسٹن کے جلسے میں ٹرمپ نے اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا، کشمیر میں جنم لیتے انسانی المیے سے نظریں پھیر لیں اور جاری بھارتی بربریت کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مودی نے کمال ہوشیاری سے نائن الیون کو چھبیس الیون یعنی ممبئی حملوں سے جوڑ کر امریکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
یہ بات مدِنظر رہنی چاہیے کہ مودی نے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اپنی ڈپلومیسی سے پہلے ہی ہمنوا بنا لیا ہے۔ وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس ملاقات میں وزیرِاعظم کشمیر کا مسئلہ بھرپور طریقے سے سامنے لائیں گے اور اپنی پوری کوشش کریں گے کہ بھارتی اثر و رسوخ جو کہ بہت بڑھ چکا ہے اسے جتنا کم کر سکتے ہیں کریں گے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہمارے اوپر لٹک رہی ہے، اس کے علاوہ پاکستانی عوام آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے مہنگائی اور غربت کی کھائی میں گرتے جا ر ہے ہیں، یہ امید کی جا رہی تھی کہ ان معاملات پر صدر ٹرمپ سے بات ہو گی۔
ایف اے ٹی ایف پر امریکی مدد کے بغیر ہمارے لیے بہت مشکل ہو گی اور زبوں حال پاکستانی معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے، امریکا یہ چاہے گا کہ جناب عمران خان کو افغانستان تک محدود رکھا جائے۔ جان بولٹن جا چکے ہیں، وہ افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ اب صدر ٹرمپ کی خواہش ہو گی کہ پاکستان کے ذریعے افغان مذاکرات کو دوبارہ ٹریک پر لایا جا سکے۔ یہ اب جناب عمران خان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں پاکستان کے لیے کیا مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔
باضابطہ ملاقات سے پہلے مشترکہ پریس کانفرنس میں تو سوائے چند تعریفی کلمات کے جو ٹرمپ نے جناب عمران خان کے لیے کہے اور جو سفارتکاری کا اہم جزو ہوتا ہے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نظر نہیں آئی۔ ٹرمپ نے ایک دفعہ پھر ثالثی کی پیش کش کی لیکن ٹرمپ کے بھارت کافین اور بہترین دوست ہوتے ہوئے اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
اصل میں یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے الیکشن کے بعد کہا تھا کہ میں پاکستان کو انڈیا کے ذریعے سارٹ آؤٹ کروں گا۔ ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد بھی کوئی مثبت پیشرفت دکھائی نہیں دی۔ وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ کی امریکا مو جودگی کے دوران پاکستان کے مؤقف اور سفارتکاری کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب یو این ایچ سی آر UNHCR میں قرارداد لانے کے لیے ہمیں پندرہ جمع ایک کی حمایت درکار تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ہمیں بڑی تعداد میں ممبران کی حمایت میسر ہے، ابھی یہ قرارداد ٹیبل ہونا تھی اور بعد میں منظوری کا مرحلہ آنا تھا لیکن ہمیں سولہ ممبران کے بجائے صرف سات ممبران کی حمایت مل سکی۔
ایران نے ہماری حمایت کی جب کہ ہمارے روایتی دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ امارات پاکستان کا ساتھ نہ دینے والوں میں نمایاں رہے۔ جناب وزیرِ خارجہ نے جنیوا میں دعویٰ کیا کہ انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کو پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کو قرارداد لانے کے لیے کونسل کے کُل 47 ممبران میں سے 16 رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔ رکن ممالک میں او آئی سی کے ٹوگو، برکینافاسو، سینیگال اور کیمرون جیسے ممبران بھی تھے جنھوں نے ہماری حمایت سے ہاتھ کھنچ لیا۔
ترک صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جنوبی ایشیا کے استحکام اور خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ یواین قراردادوں کے باوجود 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں۔ ایسے موقع پر خاموش رہنے والا بے زبان شیطان ہے۔
ہم ترک صدر کے انتہائی شکر گزار ہیں، جناب عمران خان کی ترکی، ایران اور ایتھوپیا کے صدور کے علاوہ برطانیہ، نیوزی لینڈ اور اٹلی کے ہم منصبوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ 20 ستمبر کو جدہ میں جناب عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کشمیر پر ہمارا بیانیہ مان گئی ہے لیکن نیویارک میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں عالمی رویے سے مایوسی ہوئی۔ زمینی حقیقت کا ادراک کر کے فارن پالیسی بنانا کامیابی کی طرف ایک ضروری قدم ثابت ہو سکتا ہے۔