سجاد جہانیہ کی کہانیاں
ایک ہفتہ قبل مرزا یاسین بیگ کا حکم ملا کہ سجاد جہانیہ کی کہانیوں پر گفتگو کرنی ہے، یہ حکم خوشی کا باعث بھی اور پریشانی کا بھی۔ خوشی اس لیے کہ ایک ایسے تخلیق کار پر بات کرنی تھی جسے ایک عرصے سے پڑھ رہا تھا، جن کی کہانیوں میں موجود سماجی رویوں پر طنز نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا، پریشانی یہ تھی کہ ایک ایسا تخلیق کار جس کی کہانیوں کا کینوس بہت وسیع تھا اور جس نے کہانیاں لکھنے سے قبل ان کہانیوں کے ساتھ وقت گزارا تھا۔
اس پر بات کرنے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے آپ بھی ان کہانیوں اور ان کرداروں کے ساتھ وقت گزاریں لہٰذا جب "کہانی پوچھتی ہے۔۔ "کی کہانیاں پڑھنے بیٹھا تو یوں لگا یہ کہانیاں سجاد جہانیہ نے نہیں، میں نے لکھی ہیں، ان کہانیوں میں دیہات کی منظر کشی اور کرداروں کے ٹریٹ منٹ اور مکالموں نے مجھے کرداروں کے ساتھ سفر کرنے پر مجبور کر دیا، ان کہانیوں کے کردار جہاں جہاں جا رہے تھے، بطور قاری میں بھی ان کا ہم سفر بن گیا اور یوں ایک ہی نشست میں پہلی چار کہانیاں پڑھ ڈالیں۔
سجاد جہانیہ نے یہ کہانیاں لکھنے سے پہلے جیسے ان کے ساتھ اپنے دن اور رات بسر کیے تھے، میں کہانیاں پڑھتے ہوئے ان کے ساتھ محو کلام ہوگیا، وہ منظر کشی ایسی تھی جیسے میرے اندر پل پل جنم لیتی کہانیوں میں ہے اور مجھے یقین ہے کہ سجاد جہانیہ کے ہر قاری کے ساتھ یہی ہوا ہوگا کیوں کہ کہانی ہماری تہذیبی روایت کا ایک اہم حصہ ہے، نانی دادی کی کہانیوں سے شروع ہونے والا یہ تعلق انسان کی اپنی زندگی میں درجنوں کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔
"کہانی پوچھتی ہے"کی کہانیوں میں ایک فطری بہائو ہے، ایسا لگتا ہے کہ سجاد جہانیہ نے یہ کہانیاں تخلیق نہیں کیں بلکہ ان پر شعروں کی طرح ان کا نزول ہوا اور انھوں نے من و عن انھیں کاغذ پر اتار دیا، کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی ملمع سازی کا خیال نہیں آیا اور نہ ہی کہیں کرداروں کی ٹریٹ منٹ میں اضافہ یا کمی لگی، ایک اچھے کہانی کار کی کہانیاں، پینٹنگ ہوتی ہیں، ایسے پینٹنگ جن میں رنگوں کا حسین اور فطری امتزاج اس میں کتنے ہی سانحے اور حادثات کو پیش کر رہا ہوتا ہے، سجاد جہانیہ کی کہانیاں بھی ایسی ہیں، ایسی پینٹنگز جنھیں کسی آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان پینٹنگز میں آپ کو اپنے دیہات کے فضلو، گامے، چاچے بخشے اور نادر خان کا دکھ بھی ملے گا اور رخسانہ، پروین اور پھاتاں کا بھی۔
سجاد جہانیاں کا فطری میلان معاشرے کے اس استحصالی نظام کے خلاف ہے جس نے عورت ہو ہمیشہ حبس بے جا میں رکھا، وہ عورت جو پیدائش سے لے کر شادی اور پھر موت تک، تنقید اور زوال کا شکار رہی، ایسا معاشرہ جس کی بنیادوں میں پدرسری نظام کا گارا موجود تھا، اس میں معاشرے میں عورت کو بے وقار ہوتے پل نہیں لگتا، ان کہانیوں کی عورتیں بھی ایسی ہی ہیں، جیسے منٹو، عصمت اور بیدی کے ہاں ہیں، پل پل جیتی مرتی عورت۔ وہ عورت جسے کبھی جنسی استحصال کا سامنا رہا اور کبھی مادی اور علمی، اس تاریک ماحول سے عورت نے اپنی کہانی خود تخلیق کی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہی اس سماج پر عورت کے اسرار کھلنے لگے۔
سجاد جہانیہ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تمدنی ترقی سے بیزار دور گائوں میں بیٹھی اوپلے بناتی عورت کے دکھ کو بھی سمجھا ہے اور شہر کی چمک دمک میں سانس لیتی ایک ماڈرن لڑکی کے دکھ اور احساسات کو بھی۔ مجھے یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے بار بار احمد ندیم قاسمی یاد آئے، دیہات کی فضا کو جس انداز میں قاسمی صاحب کی کہانیوں میں دیکھا جا سکتا ہے، ایسی منظر کشی اور کردار نگاری ہمیں ان کہانیوں میں نظر آتی ہے، غلام عباس کو ہم عام آدمی کا داستان گو کہتے ہیں، سجاد جہانیہ بھی عام آدمی کا داستان گو ہے، عام آدمی کے دکھ کو سمجھنے والا، اسے محسوس کرنے والا اور ان پر لکھنے والا۔
"کہانی پوچھتی ہے"کی کہانیوں میں فاضل مصنف نے معاشرے کی داخلی و خارجی بدصورتی، ملمع سازی اور سماجی منافرت کو جس احسن انداز میں پیش کیا ہے، وہ قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ مجرد خیالات کو مختلف کرداروں اور واقعات کے ذریعے زندہ و شاداب کر دینا کوئی سجاد جہانیہ سے پوچھے، افسانہ سایہ زدہ، کا کردار رخسانہ، فرحان اور چڑیل اس کی واضح مثالیں ہیں۔ پروین کا کردار صرف کہانی میں ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد نظر دوڑانے سے آپ کو سینکڑوں اور ہزاروں پروینیں ملیں گیں، ردا کا کردار بھی بہت معنی خیز اور جاندار ہے، آپ زندگی میں نہ جانے کتنی ہی ردائیں ملیں گیں جو زندگی کے دوہرائے پر کھڑی اپنے ماضی کی راکھ کرید رہی ہیں تاکہ ایک چمک دار اور معطر مستقبل تلاش سکیں، منیر نیازی نے کہا تھا:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
انور اور شوکت ہوں یا پھر علی رنگ اور مراد، یہ وہ لوگ ہیں جو سماج کا نوحہ لکھ رہے ہیں، یہ تبدیلی کے وہ پیمبر ہیں جنھیں اندھیروں کے پجاری اس خوف سے مار دیتے ہیں کہ کہیں ان کے لفظوں اور باتوں سے سماج روشن نہ ہو جائے، سجاد جہانیہ بھی نے ایسے کردار تخلیق کیے ہیں جن کی خوشبوں سے ایک معاشرہ معطر ہو رہا ہے، جن کی روشنی سے ایک دنیا چمک رہی ہے۔
ان مختصر اور قدرے طویل کہانیوں جنھیں سنگ میل نے شائع کیا ہے، میں ہمیں اپنے اپنے گائوں کی تصویریں نظر آتی ہیں، میں ان کہانیوں کی قرات کے دوران کئی مرتبہ اپنے گائوں جا پہنچا، ان محبت کرنے والے کرداروں سے ملاقاتیں کیں اور سجاد جہانیہ کو دعا دی کہ انھوں نے مجھے شہر میں بیٹھے بیٹھے میرے گائوں کی سیر کروا دی۔ انھوں نے جیسے گائوں کسانوں، مہاجنوں، زمینداروں اور مزدوروں کے دکھ لکھے ہیں۔
مجھے تنویر سپرا کا شعر یاد آ گیا:
مزدور ہوں محنت کا صلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجیے خیرات نہیں چاہیے مجھ کو
۔۔
(نوٹ: پاکستان رائٹرز کونسل کے زیر اہتمام "کہانی پوچھتی ہے" کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا مضمون، اس تقریب کی مجلسِ صدارت میں ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور محترم عطاء الحق قاسمی تھے)