ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ بل کی منظوری
پاکستان کی قومی اسمبلی سے چھ ماہ قبل 17جنوری 2023ء کو ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ اور امہات المومنینؓ کی توہین پر عمر قید کی سزا کا بل متفقہ طور پر منظور ہوا تھا، یہ بل جماعت اسلامی کے اسمبلی ممبر مولانا عبد الاکبر چترالی نے پیش کیا تھا۔ اس بل کے مطابق صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے پر کم از کم سزا دس سال قید اور دس لاکھ جرمانہ تجویز کی گئی، یہ سزا عمر قید میں بھی بدل سکتی ہے۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے چھ ماہ بعد یہ بل گزشتہ ہفتے سینٹ سے بھی منظور ہوگیا۔ اس بل کی منطوری میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظمِ اعلیٰ اور سینیٹر حافظ عبد الکریم، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدلغفور حیدری نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس بل کی منظوری کی بنیادی وجہ دہشت گردی اور مذہبی و مسلکی انتہا پسندی ہے، چند مخصوص گروہ ذاتی مفاد اور ذہنی تسکین کے لیے معاشرے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے ایک خاص ایجنڈے کے تحت حضرت محمدﷺ کے صحابہ کرامؓ، اہلِ بیتؓ اور امہات المومنینؓ کی توہین کی جاتی ہے، اس کی روک تھام اشد ضروری ہے لہٰذا مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے۔
توہینِ صحابہؓ و اہل بیتؓ اور امہات المومنینؓ کی توہین کے حوالے سے پہلے سے قانون موجود ہے جس میں سزا تین سال رکھی گئی تھی، قانون کی رو سے جس جرم کی سزا سات سال سے کم ہو، وہ قابلِ ضمانت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا رہا کہ جن لوگوں پر توہین کے مقدمے بنتے تھے، انھیں ضمانتیں مل جاتی تھیں، یوں ازواج مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ کے خلاف سرعام زبان درازی کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ نہ ہو سکا۔ موجودہ مذہبی و مسلکی انتہا پسندی کی ایک بنیادی وجہ وہ طبقہ ہے جس نے ان مقدس ہستیوں کے خلاف محاذ کھڑا کیا، مسلمانوں کو ناقابلِ یقین کہانیاں، جھوٹی روایات سنا سنا کر ان مقدس ہستیوں کے آپسی اختلافات کو ہوا دی تاکہ اس سے ذاتی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
صحابہ کرامؓ و اہل بیتؓ کی ناموس کے حوالے سے قاضی حسین احمد مرحوم نے ملکی یکجہتی فورم کونسل کے پلیٹ فارم سے نمایاں کردار ادا کیاتھا، انھوں نے اہلِ تشیع اور اہل سنت علماء سے اس یاداشت پر دستخط کروائے تھے کہ تنقیصِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ گناہِ کبیرہ ہے۔ ناموس کے حوالے سے کئی اہم اصولوں پر علماء کا اتفاق ہو چکا تھا مگر اسے قانون میں شامل کرنا ضروری تھا۔ ایک دور میں مولانا اعظم طارق نے اسمبلی میں بل پیش کیا تھا مگر وہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر منظور نہ ہو سکا۔ بعد ازاں ان کے بیٹے معاویہ اعظم طارق، مولانا الیاس چنیوٹی اور مولانا جلیل احمد شرقپوری کی کوششوں سے یہ بل پنجاب اسمبلی سے پاس ہواتھا، اس حوالے سے چودھری پرویز الٰہی نے بھی اہم کردار ادا کیاتھا، گورنر پنجاب کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے یہ بل قانون کا حصہ نہ بن سکا۔
گزشتہ ہفتے سینٹ میں جب یہ بل پیش ہوا تو سینیٹر مشتاق احمد خان نے انتہائی حساس پہلوئوں کی جانب اشارہ کیا، انھوں نے اس سوشل میڈیا ونگ کی جانب بھی اشارہ کیا جس کا مقصد نبی کریمﷺ سے وابستہ مقدس ہستیوں کی توہین ہے۔ سوشل میڈیا پر جس انداز میں صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ اور اہلِ بیتؓ کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے، سرکار کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت اگر ملک کے حساس اداروں اور ریڈ لائن کراس کرنے والوں کے لیے پارلیمنٹ میں چند گھنٹوں میں قانون سازی کر سکتی ہے تو ہماری مقدس ہستیوں کے لیے آج تک قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟
سات اگست کو سینٹ سے یہ بل منظور ہوا اور اگلے ہی لمحے سوشل میڈیا پر اس بل کے خلاف پراپیگنڈا شروع ہوگیا، کوئی اسے آزادیِ اظہار رائے پر حملہ کہہ رہا ہے تو کوئی بے تکے جواز گھڑ رہا ہے تاکہ اس کی آڑ میں مسلکی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا سکے۔ آزادیِ اظہارِ رائے پر حملہ کہنے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ اگر کوئی آپ کی ماں، بہن، بیٹی یا اہلِ خانہ کو گالی دے، آپ کیا جواب دیں گے؟ گر آپ اس قبیح عمل پر شدید غصے میں آسکتے ہیں اور اپنے گھر والوں کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے تو امت مسلمہ نبی کریم کے گھرانے اور دوستوں پر لگائے جانے والے من گھڑت الزامات کیسے برداشت کرے؟ اگر آپ ماں، بہن، بیٹی کی عزت کے رکھوالے ہیں تو مسلمان اپنے پیغمبرﷺ کے بارے اس قدر حساس کیوں نہیں ہو سکتا لہٰذا شرپسند عناصر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پیغمبر اسلامﷺ کے اہلِ بیتؓ، ازواج مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف مغلظات بکنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
گزشتہ ایک ماہ میں مختلف علاقوں میں درجن سے زائد ایف آئی آر کاٹی گئیں، ہر اس شخص کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے جس نے آزادیِ اظہار کی آڑ میں اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ سینٹ میں ناموسِ صحابہؓ و امہات المومنینؓ بل پر بحث کرتے ہوئے سنیٹر مشتاق احمد خان نے واضح کیاکہ صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ و امہات المومنینؓ کی توہین کے ثبوت لیگل کمیشن برائے توہین نے فراہم کیے ہیں، سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنی ہوگی، اس کے لیے قومی اسمبلی کے بعد سینٹ سے بھی بل منظور ہونا چاہیے۔
یہ بل سینٹ میں التوا کا شکار کیوں رہا، کون سے عناصر تھے جو اس بل کی منظوری میں رکاوٹ بن رہے تھے، اس بل کے بعد شرپسند عناصر کا اگلا حربہ کیا ہوگا، کیا سرکار اس بل پر عمل کروائے گی یا پھر مخصوص لابیاں اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے سرکار کو ناکام کریں گی۔ یہ سارے سوالات سوشل میڈیا پر زیربحث ہیں اور ہونے بھی چاہیں کیوں کہ ناموس کا بل پاس ہونا انتہائی ناگزیر ہو چکا تھا۔ ایسے یوٹیوبرز اور مقررین کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنا ہوگا جو اسلام کی مقدس ہستیوں کے بارے عوام الناس کو من گھڑت روایات میں دھکیل رہے ہیں، معاشرے میں انتشار اور انارکی پھیلانے والے اسلام دشمنوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔
بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ خدا کے بعد سب سے معزز اور مکرم ہستی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، ان سے وابستہ صحابہ کرامؓ، اہل بیتؓ اور امہات المومنینؓ، ان کے بارے کسی بھی طرح کی منفی رائے دینے والوں کو ناموسِ صحابہؓ و اہل بیتؓ کے مطابق سزا دینی ہوگی تاکہ امن، اخوات اور بھائی چارے کو فروغ مل سکے۔