کھوئے ہوؤں کی جستجو
کچھ روز قبل عزیزم محسن تارڑ نے فون کرکے خوش خبری سنائی کہ استاد محترم کیف عرفانی مرحوم کا مجموعہ کلام "محبت ساتھ رکھتا ہوں" شائع ہو چکا ہے، اس مجموعے کی اشاعت سے محبانِ کیف کی خوشی دیدنی ہے۔ اس مجموعے کا نام بھی کیف صاحب نے خود رکھا تھا بلکہ راقم سے انھوں نے کچھ مضامین کا بھی ذکر کیا تھا جن کو وہ کتابی شکل میں چھاپنا چاہتے تھے۔ کیف صاحب سے سیکھنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے، وہ اپنے شہر کی ادبی پہچان تھے، استاد تھے اور ایک بہترین مصلح بھی، جو ان کی محفل میں گیا، کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا۔
جب تک زندہ رہے، ادبی حلقوں کی رونق تھے، کوئی بھی مشاعرہ، تقریب اور سیمینار ان کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا، اخیر عمر میں بھی دوستوں اور شاگردوں کی طرف سے ملنے والی دعوتوں کو ضرور قبولتے، چاہے کچھ دیر ہی شرکت کرتے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی تقریب میں شرکت کی ہامی بھری ہو اور پھر بوجوہ شریک نہ ہوئے ہوں۔ خاموش طبع اور گوشہ نشین ہونے کے باوجود اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بہت کچھ سکھایا، یہاں تک کہ مشاعرے کے آداب بھی سکھائے، شعر کہنا سکھایا، گفتگو کرنے کا سلیقہ اور ڈھنگ سکھایا۔
منڈی بہاؤالدین کی شعری فضا جن سینئرز کی وجہ سے تازہ دم تھی، ان میں حکیم افتخار فخر، حکیم ربط عثمانی اور کیف عرفانی سرفہرست تھے۔ یہ تینوں ہستیاں اور ان سے وابستہ افراد نے شہر کو ادبی گہوارہ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مسلسل مشاعرے اور ادبی تقریبات نے شہر کی فضا کو ادبی جمود سے بچائے رکھا مگر صد افسوس ان شخصیات کے جاتے ہی ادبی فضا جس جمود کا شکار ہے اور ادبی دھڑے بازی نے ماحول کو جیسے سوگوار بنا رکھا ہے، اس میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کیف عرفانی اور حکیم ربط عثمانی نے گوشہ نشینی کی زندگی گزاری مگر حکیم افتخار فخر اخیر عمر تک متحرک رہے، ادبی تقریبات اور مشاعرے ان کے دور میں سب سے زیادہ ہوئے، ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا اور ملک بھر سے شعراء انہی کی وجہ سے منڈی بہاؤالدین کا رخ کرتے۔ ان کے انتقال کے بعد باقی دو ہستیوں کو اس طرح متحرک نہیں دیکھا گیا، کیف صاحب پھر بھی کسی حد تک حلقہ احباب سے جڑے رہے، ان کو ادبی تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا مگر حکیم ربط عثمانی کو ان کی زندگی میں ہی مشاعروں سے دور کر دیا گیا۔
اس وقت کے نوآموز شاعروں اور خود ساختہ ادبی نمائندوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارے بزرگ شعراء کے پاس تو کچھ نیا ہے ہی نہیں، انھیں بس صدارت کی خواہش ہے لہٰذا ہم انھیں قبول نہیں کریں گے حالانکہ حکیم ربط عثمانی کے پاس بیٹھنے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے دل میں مشاعروں کی ہوس بالکل نہیں تھی۔ دو سے تین مرتبہ راقم نے مشاعرہ کروایا، حکیم صاحب اور عبدالمجید چراغ کو بہت منت سماجت کے بعد اس بات پر راضی کیا کہ وہ اس محفل میں تشریف لائیں، انہی کے حکم پر جمیل ناز مرحوم، سید الطاف بخاری اور دیگر سینئرز شریک ہوئے۔
حکیم صاحب اپنے اعزاز میں شامیں سجانے کے بھی قائل نہیں تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ "مشاعروں اور اپنے اعزاز میں شاموں کی ہوس ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا کام برائے نام ہوتا ہے، جن لوگوں نے ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری ہو اور جن کے کام کو اپنے عہد کے سینئرز اور معاصر، سب سراہتے ہوں انھیں شاموں اور مشاعروں سے کیا غرض"۔ صد شکر کہ حکیم افتخار فخر مرحوم کو ادریس قریشی اور کیف عرفانی مرحوم کو محمد ضیغم مغیرہ کی صورت میں ادبی وارث میسر آئے۔
ان احباب نے ادبی جمود کو توڑنے اور مشاعروں کی روایت (جس کی بنیاد سینئرز نے رکھی تھی) کو تازہ دم رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، یہ احباب کسی شہرت اور لالچ کے بغیر ادبی خدمت میں مصروف ہیں، ان کی تقریبات کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کی دعوت پر تمام لکھنے والے شریک ہوتے ہیں، کوئی سینئر ہے یا ہم عصر، یہ دوست سب مہمانوں اور لکھنے والوں کو غیر معمولی عزت و احترام سے نوازتے ہیں۔
ذاتی نمود نمائش اور خودساختہ استادی اور نمائندگی کی بجائے نوآموز قلم کاروں کو معمولی کام پر بھی غیر معمولی عزت سے نوازتے ہیں، یہی حوصلہ افزائی ان کے حلقہ احباب کو وسیع کر رہی ہے۔ حکیم ربط عثمانی کی زندگی میں ہم نے ایک یہ بھی کوشش کی تھی کہ جو سینئرز ادبی منظر نامے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں یا جن کو زبردستی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، انھیں دوبارہ اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ ادبی منظر نامے کا حصہ بنیں اور شہر کی ادبی فضا کو سازگار بنانے میں ہمارا ساتھ دیں، اس حوالے سے کچھ سینئرز سے راقم اور حکیم صاحب ملنے بھی گئے اور انھیں ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے آمادہ کیا۔
راقم نے پہلی قومی اردو کانفرنس 2013ء کروائی تو وہ سبھی احباب اس کانفرنس اور قومی مشاعرے کا حصہ تھے جو بوجوہ ادبی منظر نامے سے دور ہو گئے تھے، یہ کانفرنس اور اس کے بعد ہونے والی دو قومی کانفرنسوں نے منڈی بہاؤالدین کو قومی دھارے میں لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ برادر محمد ضیغم مغیرہ نے بھی دو قومی کانفرنسیں کروائیں اور کراچی سے کوئٹہ تک، درجنوں ادیب اور قلم کاروں کو مدعو کیا اور شہر کی ادبی فضا کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اب شہر کی ادبی فضا پر ایک مرتبہ پھر جمود طاری ہے۔
نئی تقریبات تو اپنی جگہ ہمیں اپنے سینئرز کو بھی بھولتے جا رہے ہیں، وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگی میں انتہائی غیر معمولی کام کیا، ان کی وفات کے بعد انھیں یاد کرنا چاہیے، مشاعروں اور شاموں کی ہوس میں ہمارے نئے لوگ، قدآور لوگوں سے دور ہو گئے جس کا الزام اس خاص گروہ کو جاتا ہے جنھوں نے شہر کی ادبی دنیا کو انتہائی بری طرح متاثر کیا، یہ سچ ہے کہ نئے لکھنے والوں کو بتایا ہی نہیں گیا کہ ادبی کام کن لوگوں نے کیا اور ہم نے انھیں کیسے اور کیوں فراموش کیا؟ جو لوگ اپنے حقیقی خدمت گزاروں کو فراموش کر دیں، زمانہ انھیں بھی جلدی فراموش کر دیتا ہے۔