Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Aaghar Nadeem Sahar
  3. Ilmi Aur Nafsiyati Istehsal

Ilmi Aur Nafsiyati Istehsal

علمی اور نفسیاتی استحصال

اس وقت پورا پاکستان سڑکوں پر ہے۔ کوئی سیاسی حقوق کے نام پر، کوئی طلبا استحصال کے نام پر اور کوئی معاشی بد حالی کو پیٹ رہا ہے۔ تمام نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ احتجاج کی کہانی جو لاہور سے شروع ہوئی تھی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی۔ درجنوں نجی تعلیمی ادارے جل کر راکھ ہو چکے، جو باقی بچ گئے ہیں، وہ بھی سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال میں ہمارے ریاستی ادارے اور طاقتور لوگ، سٹوڈنٹس کا یک رکنی مطالبہ ماننے کی بجائے بلاجواز کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔

سٹوڈنٹس جو بہت زیادہ مشتعل ہیں اور غصے اور نفرت میں اپنے ہی اداروں اور لوگوں کو مار رہے ہیں، ان سے بات کرنے کی ضرورت تھی، بلا جواز کہانیاں سنانے اور دھمکیاں دینے کی بجائے اس تشویش ناک صورتحال سے انتہائی سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت تھی مگر ہمارے ادارے اور شخصیات، ایک پیج پر اکٹھے ہو گئے، طالب علموں کو سننے کی بجائے ان پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے، انھیں لہولہان کیا اور بدلے میں مشتعل سٹوڈنٹس نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بھی وہی کیا جو اعلیٰ حکام ان سے کر رہے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حالات بہتری کی جانب جائیں گے یا نہیں، آخر سٹوڈنٹس کے یک نکاتی مطالبے کو ماننے میں مضائقہ کیا ہے، یک نکاتی مطالبہ کیا ہے؟ صرف اتنا کہ تعلیمی اداروں میں جاری سٹوڈنٹس کا استحصال بند کیا جائے، اب استحصال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے چاہے نجی ہیں یا سرکاری، وہاں برسوں سے سٹوڈنٹس کا استحصال جاری ہے۔ یہ استحصال صرف جنسی نہیں ہے، علمی بھی ہے اور نفسیاتی بھی۔ کیا اس معاملے میں آج تک سنجیدگی سے سوچا گیا، کیا آج تک تعلیمی اداروں میں بیٹھے ان طاقتور افراد نے ایک مرتبہ بھی سوچنے کی زحمت کی کہ ہم اپنی نئی نسل کوورثے میں کیا دے رہے ہیں؟ استحصال صرف جسمانی یا جنسی نہیں ہوتا، بچوں کو نفسیاتی یا علمی طور پر بانجھ کرنے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے جنسی یا جسمانی استحصال کرنے والے۔

ملک بھر میں جاری احتجاج کو صرف ایک واقعے سے جوڑنے کی بجائے تعلیمی اداروں کی مجموعی کارکردگی اور استحصال کی روایت سے جوڑ کر دیکھیں، آپ کو یہ چیختے چلاتے سٹوڈنٹس بالکل بھی غلط نہیں لگیں گے۔ جب تعلیمی اداروں میں بیٹھے اساتذہ، اپنے منصب کا خیال کرنے کی بجائے بچوں کا استحصال کریں گے تو یہ بچے آخر کب تک خاموش رہیں، کب تک یہ ظلم اور جبر کی سیاست برداشت کریں، کب تک یہ نوجوان ظالم آقائوں کی گھنائونی انا کی بھینٹ چڑھیں، کب تک، آخر کب تک؟

پچھلے ایک ہفتے میں ملک کی چار بڑی جامعات اور کالجز میں جنسی ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ فیک نیوز کی وجہ سے ایک نجی کالج بھی اس معاملے میں زیربحث ہے، پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی (چار دن پہلے) ایک بچی نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کی ہے، یہ خودکشی کا واقعہ ہو یا پھر ہراسگی کے درجنوں واقعات، ہمارے تعلیمی ادارے اس حوالے سے اپنا اپنا وقار کھو چکے ہیں، یہ کھویا ہوا وقار آخر کیسے بحال ہوگا؟

سٹوڈنٹس کی بات سننے اور مکالمہ کرنے سے یا پھر پولیس کے لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے؟ چلیں مان لیا کہ یہ سٹوڈنٹس ایک گھنائونے پراپیگنڈے کا حصہ بن گئے ہیں اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا مگر کیا یہ حقیقت جھٹلائی جا سکتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں برسوں سے تشنگانِ علم کا استحصال جاری ہے، کہیں گرلز کا استحصال میل اساتذہ کی طرف سے اور کہیں بوائز کا استحصال فی میل اساتذہ کی طرف سے۔

یہ استحصال صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ باردگر عرض کرتا چلوں کہ جنسی یا جسمانی استحصال سے کہیں زیادہ علمی و نفسیاتی استحصال جاری ہے اور برسوں سے جاری اس استحصال اور ظلم و جبر کی وجہ سے جو نسل تیار ہو رہی ہے وہ علمی طور پہ بھی بانجھ ہے اور ذہنی طور پر بھی۔ اس میں کیسی دو رائے کہ جب استاد علمی و ذہنی طور پر بنجر ہوگا تو وہ جو نسل تیار کرے گا، وہ بھی دولے شاہ کے چوہوں جیسی ہوگی، یہ سڑکوں پر احتجاج کرتی نسل کا یہی یک نکاتی مطالبہ ہے کہ سٹوڈنٹس پر رحم کیا جائے۔ ایسے لوگ تعلیمی اداروں سے دھکے دے کر نکالے جائیں جن کے پاس استحصال، تعصب اورنفرت کے سوا کچھ نہیں۔

ہر سال کسی نہ کسی یونیورسٹی میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس کے بعد چند دن تک ہمارے دانش ور بڑے پریشان رہتے ہیں، میڈیا پر پے د ر پے پروگرام ہوتے ہیں، اعلیٰ حکام بھی پریس کانفرنس کرتے ہیں اور طاقتور اداروں کے کرتا دھرتا بھی دکھی ہوتے ہیں مگر افسوس اگلے چند دن بعد ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کیا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے ہم بلی کے پنجوں سے بچ جائیں گے؟

آج ہم سڑکوں پر نکلنے والوں کو شرپسند کہہ رہے ہیں، اپنے حق کی بات کرنے والوں پر ڈنڈے برسا رہے ہیں، مکالمے کی دعوت دینے والوں کو ہم دہشت گرد کہہ رہے ہیں اور سوچیں کل خدانخواستہ ہمارا کوئی اپنا اسی ظلم و زیادتی یااستحصال کا شکار ہوا تو ہم کیا کریں گے، کیا ہم تب بھی لاٹھی چارج کریں گے، ہم تب بھی شیلنگ کریں گے اور ریاست کی طاقت کا غلط استعمال کریں گے؟ تعلیمی ادارے، چاہے نجی ہیں یا سرکاری، سب کو ایک متفقہ پالیسی بنانا ہوگی جس میں یہ طے کر دیا جائے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں کم از کم جنسی استحصال کا واقعہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

استاد کرپٹ ہو یا پھر سربراہ ادارہ، طالب علموں کا استحصال کرنے پرسب کو سزا ملے گی۔ اس پالیسی میں ان کرداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے جو اپنے طالب علموں کو جنسی یا جسمانی کی بجائے نفسیاتی اور علمی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ ہراساں صرف میل اساتذہ ہی نہیں کرتے، فی میل اساتذہ بھی اپنی جھوٹی انا پر اپنے طالب علموں کو قربان کر دیتی ہیں۔

میل ہوں یا فی میل، ہر اس کردار کو سزا ملنی چاہیے جس نے طالب علموں کو روشنی کی طرف لے جانے کی بجائے تاریکی کا رستہ دکھایا۔ جس نے مکالمہ اور سوال کا گلہ گھونٹا اور طالب علموں کو ذہنی طور پر بانجھ کر دیا، جب تک ہم یہ پالیسی نہیں بنائیں گے، ہمارے تعلیمی اداروں سے جنسی، جسمانی، علمی، نفسیاتی اور ذہنی استحصال کے واقعات ختم نہیں ہوں گے۔

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza