Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Aaghar Nadeem Sahar
  3. Har Ankh Ashkbar Hai, Har Dil Udas Hai

Har Ankh Ashkbar Hai, Har Dil Udas Hai

ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر دل اداس ہے

2015ء میں کراچی گئے جہاں کئی مشاعروں اور نشستوں میں شریک ہوئے، "جسارت "کے یومِ تاسیس پر پریس کلب میں مشاعرہ تھا، مرحوم اجمل سراج نے حکم دیا کہ آپ دونوں بطور مہمانِ خاص شریک ہوں، ہم نے جانے کا پلان کر لیا۔ اس مشاعرے میں کراچی کے تمام نمایاں لکھنے والے موجود تھے، انور شعور، عنایت علی خان، رسا چغتائی، اجمل سراج، وسعت اللہ خان، فاضل جمیلی، تنظیم الفردوس، حجاب عباسی، سلمی غزل اور خالد معین سمیت درجنوں شعرا۔ اس مشاعرے میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن(اس وقت کراچی کے امیر تھے) بھی شریک تھے۔

ہم پریس کلب وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے، تیمور نے کسی ڈھابے سے چائے پینے کی خواہش ظاہر کی اور ہم ڈھابے کی تلاش میں نکل پڑے۔ ہم اپنے ہی دھیان میں گپ شپ لگاتے چل رہے تھے کہ تیمور نے ایک دم رکنے کا آرڈر لگایا، کہنے لگا سامنے گلی میں دیکھو، کیا ہے؟ میں نے دیکھا تو وہاں چائے کا ہوٹل تھا۔ مجھے کہنے لگا"یار! انھاں میں آں، نظر تینوں نہیں آندا"، (اندھا میں ہوں، نظر تمہیں نہیں آتا)میں بہت دیر تک اس جملے سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

ہم نے چائے پی اور جب تیمور نے بل دینے کے لیے پانچ سو کا نوٹ نکالا تو میں نے کہا تیمور بھائی یہ تو سو کا نوٹ ہے، تیمور نے نوٹ کے سائز کا جائزہ لیا اور قہقہہ لگاتے ہوئے بولا"میں انھاں ضرور آں، پر اینا وی نئیں "(اندھا ضرورہوں لیکن اتنا بھی نہیں)۔ تیمور ایسے جملے اکثر بولا کرتا تھا، وہ اپنے آپ کو جگتیں لگاتے ہوئے بالکل بھی ہچکچاتا نہیں تھا بلکہ وہ اس سے بھی لطف کشید کرتا تھا۔ وہ دوستوں سے مخلص تھا اور دوست بھی اس سے بہت مخلص تھے۔

اپنے قریبی دوست ارشد شاہین کی شادی پر شرکت کے لیے کھاریاں گیا توڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے لگا۔ ارشد نے روکا کہ تیمور یار بیٹھ جائو، لوگ کیا کہیں گے، اس موقع پر تیمور نے جو جملہ بولا، وہ تیمور ہی بول سکتا تھا، کہنے لگا"ارشد میں ایک ریکارڈ قائم کر رہا ہوں، لوگ اپنی شادیوں پر کس کس کو نچاتے ہیں، تم جانتے ہو، تمہارا یہ اعزاز ہوگا کہ تم لوگوں کو بتانا میں نے اپنی شادی پر اندھے نچائے تھے"۔ یہ جملہ مجھے بتائیں ایک عام آدمی بول سکتا ہے؟ تیمور ایسا ہی تھا، کھلے ذہن کا ایک شاندار جگت باز۔ ایسے کئی واقعات تیمور کے حوالے سے میرے ذہن میں ہیں، میں نے تیمور کے ساتھ سفر بھی کیا اور نشستیں بھی، اس کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ بہت شاندار ہے۔

ماسٹرز کرنے کا ارادہ کیا تو تیمور سے مشورہ کرنے اس کے گھر پہنچا، ہمارے سامنے تین مختلف ادارے تھے جن میں مجھے داخلہ مل سکتا تھا، اورینٹل کالج پر ہم دونوں متفق ہو گئے اور یوں میری زندگی کے ایک شاندار دور کا آغاز ہوگیا۔ ہاسٹل میں جگہ ملی تو وہاں ایک ادبی میلہ سج گیا، ہر شام ہاسٹل کی کینٹین پر تیمور حسن تیمور، ضمیر حیدر ضمیر، ظہیر کاشر وٹو اور راقم بیٹھ جاتے، اس محفل کبھی کبھی تہذیب حافی اور مشتاق احمد بھی شریک ہوتے۔ ہم کینٹین پر بیٹھتے تو تیمور کو سننے والوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نجی محفل بھی مشاعرے کا روپ دھار لیتی۔ ہم نے ان گنت شامیں تیمور کے ساتھ وولنر ہاسٹل کی کینٹین پر گزاریں، وہ دو سال بہت شاندار تھے۔

ہاسٹل میں جمعیت کے مشاعرے ہوتے تو وہاں بھی تیمور بطور مہمان خاص شریک ہوتے، تیمورکو اللہ تعالیٰ نے شہرت بھی دی تھی اور عزت بھی، قابل اطمینان بات یہ تھی کہ اس عزت اور شہرت سے اس کا ہاضمہ خراب نہیں ہوا تھا، وہ شہرت پانے کے بعد بھی دوستوں کا دوست تھا، اس کے مزاج اور شاعری میں ذرا فرق نہیں آیا تھا۔ ہمارے ہاں یہ صورت حال بہت عام ہے، جب کوئی مشہور ہو جاتا ہے تو اس کا مزاج بھی خراب ہو جاتا ہے اور شعر بھی، تیمور نے ان دونوں پر کبھی کمپرومائز نہ کیا، وہ اپنی شاعری اور دوستوں کو کبھی الگ رکھ کے نہیں دیکھتا تھا۔

تیمور سے بہت قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار اختلاف بھی ہو جاتا، ہم جزوقتی ناراض بھی ہوتے مگر یہ ناراضی ایسی بالکل نہیں ہوتی تھی کہ ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں یا پھر سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کریں۔ تیمور کی یہ خوبی اسے سب سے نمایاں کرتی ہے کہ وہ دوستوں سے ناراض بھی ہوتا تو تعلق بچاتا رہتا، اس کی ناراضی ایسی نہیں تھی کہ وہ دشمنی بنا لے یا قتل و غارت پر اتر آئے۔ دوستوں سے اختلاف کے باوجود ان کی عزت و احترام کا خیال رکھتا، ان سے وقتی ناراضی کو کبھی طول نہ دیتا، خود رابطہ کرتا اور دوستوں کے شکوے سن کر راضی ہوجاتا۔

تیمور حسن تیمور، احسان فراموش نہیں تھا، جس نے بھی تیمور سے محبت کی، اس نے بدلے میں حق ادا کیا۔ تیمور کے لیے سائنس کالج میں رہائش کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، وارڈن کسی کی سفارش مان رہا تھا نہ منت ترلا۔ عطاء الحق قاسمی صاحب کی گزارش پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نوٹس لیا اور تیمور کو راتوں رات گھر الاٹ ہوگیا، قاسمی صاحب کی اس شفقت اور احسان کو وہ تادمِ مرگ نہیں بھولا، جب بھی ان کا ذکر آتا، اس کی آنکھیں نم ہو جاتیں، اس نے اپنی کتاب"ترا کیا بنا"کا انتساب بھی ان کے نام کیا تھا۔

تیمور کے مشاعرے پڑھنے کا انداز بہت نرالا تھا، وہ مائیک پہ چڑھ کر بیٹھتا اور اتنی اونچی آواز میں شعر سناتا کہ مائیک کی معنویت پر سوالیہ نشان لگ جاتا، وہ ہوتا تو مشاعرے میں اسی کا طوطی بولتا۔ تیمور اگرچہ مشاعروں کی سیاست سے ہمیشہ دور رہا مگر کچھ کند ذہن اور ناہنجار، مشاعروں سے اس کا نام اس لیے بھی کٹوا دیتے تھے کہ "یہ ہمارے حصے کی داد بھی لے جاتا ہے"، ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ دادتو خداداد ہوتی ہے، اس میں کسی کے آنے اور جانے سے کیا فرق پڑھتا ہے، ہاں تیمور کا یہ کمال ضرور تھا کہ وہ شعر اس انداز سے سناتا کہ شعر کی تاثیر دوگنی ہو جاتی، یہ ہنر اس نے نہ جانے کہاں سے سیکھا تھا۔ تیمور کے جنازے پر دو اشعار ہوئے تھے، ذرا ملاحظہ فرمائیں:

ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر دل اداس ہے
محفل سے جو گیا ہے میرا غم شناس ہے

خوشبو فضائوں میں تری، باتوں کی بازگشت
تو جا چکا ہے پھر بھی میرے آس پاس ہے

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz