حلقہ اربابِ ذوق اور چند گزارشات
عام انتخابات اور سیاسی گہماگہمی اپنے اختتام کو پہنچی تو حلقہ اربابِ ذوق کے سالانہ انتخابات آ پہنچے، یہ انتخابات قومی انتخابات سے یکسر مختلف ہوتے ہیں، سیاسی انتخابات میں ووٹرز بک جاتے ہیں یا پھر ان کا قائد، یہاں ایسا نہیں ہوتا، یہ انتخابات انتہائی پرامن اور شفاف طریقے سے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں امیدواروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں شفافیت برقرار رہتی ہے، شکست کھانے والا اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے اور جیتنے والے کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتا ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق لاہور، موجودہ عہد میں قلم کاروں کا واحد اہم ترین پلیٹ فارم ہے جس کی پچاسی سالہ روایت انتہائی تابناک اور شاندار ہے۔ اس اہم ترین پلیٹ فارم سے فکشن اور شاعری کے انتہائی قدآور نام وابستہ رہے، انھوں نے بطور سیکرٹری حلقہ اربابِ ذوق کی آبیاری میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا۔ اردو کی کئی اہم تحاریک کا آغاز اس اہم مجلس سے ہوالہٰذا حلقہ اربابِ ذوق ایک ادبی تنظیم نہیں بلکہ اب ایک قدآور ادارہ بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کا سیکرٹری ہونا کسی قومی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔
اس مرتبہ یہ الیکشن دو سال کے تعطل کے بعد ہو رہے تھے لہٰذا قلم کاروں کا جوش دیدنی تھا، نواز کھرل اور سلمان رسول نے انتہائی عمدگی سے ادبی کمپین کی، اس مرتبہ فتح ہمارے دبنگ صحافی اور قلم کار دوست نواز کھرل کو نصیب ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق 2024-25کے لیے وہ بطور سیکرٹری منتخب ہوئے۔
برادر نواز کھرل الیکشن جیتنے کے بعد دس مارچ کو چارج سنبھالیں گے، دس مارچ حلقہ اربابِ ذوق کا سالانہ جلسہ ہوگا جس میں سابق سیکرٹری میاں شہزاد احمد چارج نئے سیکرٹری کو منتقل کریں گے، چارج لینے کے بعد برادر نواز کھرل کو حلقے کے لیے بہت سارا کام کرنا ہوگا، لاہور میں ادیبوں کی ایک کثیر تعداد حلقہ اربابِ ذوق سے نالاں ہیں، پچھلے چند سال سے حلقہ اربابِ ذوق پر ایک الزام لگتا رہا کہ یہاں فیورٹ ازم زیادہ ہے، جو بھی حلقے کا سیکرٹری بنتا ہے وہ اگلے پانچ دس سال کا سوچنا شروع کر دیتا ہے، اس مشن کے تحت پچھلے کچھ سال میں حلقہ اربابِ ذوق کی ممبر شپ چار پانچ سو تک چلی گئی، درجنوں ایسے لوگ بھی ممبر بنا دیے گئے جو ایک شعر بھی وزن میں نہیں کہہ سکتے، جن لوگوں کو حلقے میں گفتگو کا بھی سلیقہ نہیں، انھیں ممبر بنا کر اپنے ووٹرز بنائے گئے، یہ حقیقت ہے یا محض الزام، اس سے قطع نظر، نواز کھرل کو حلقے کے لیے انتہائی سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔
لاہور میں درجنوں ایسے قلم کار ہیں جو انتہائی سینئرز ہیں، جن کی کتب درجنوں میں ہیں مگر وہ ابھی تک ممبر نہیں ہیں، کئی نام لکھ سکتا ہوں مگر فی الوقت یہ موضوع نہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق کی نئی مجلس عاملہ یقیناً کچھ سخت فیصلے کرے گی، مقدار کی بجائے معیارکو مدنظر رکھتے ہوئے نئی ممبر شپ کی جائے، وہ تمام لوگ جو اس اہل نہیں تھے کہ حلقے کے ممبر بن سکیں، ان کے بارے ازسرنو سوچا جائے، مجلس عاملہ فیصلہ کرے کہ کسے ممبر ہونا چاہیے اور کسے صرف ممبر شپ کا امیدوار۔
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حلقے میں ان شخصیات کو لایا جائے جو گزشتہ کئی سال سے حلقے سے دور ہیں، میں نے پہلے عرض کی کہ کئی ایسے نام موجود ہیں جو اس لیے حلقے میں نہیں آتے کہ وہ یہاں کے فیصلوں اور مجلس عاملہ کی پسند نا پسند سے نالاں ہیں، مجلسی تنقید کی اہمیت اپنی جگہ مگر حلقہ اربابِ ذوق میں پیش کی جانے والی تخلیقات اور ان پر کی جانے والی بحث ذاتیات سے بھی آگے نکل چکی ہے، نظریات پر بات ہونے کی بجائے شخصیات اہم سمجھی جانے لگیں تو ایسے پلیٹ فارمز کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ سارے صرف الزامات ہوں مگر ان کی تردید کے لیے بھی مجلس عاملہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ساڑھے پانچ سو ممبرز میں سے کتنے ہیں جو ہفتہ وار جلسوں میں آتے ہیں، کتنے فیصد ووٹ ڈالنے آتے ہیں، کتنے فیصد ادبی کام کر رہے ہیں اور کتنے مکھی پر مکھی مار رہے ہیں۔ ایک اور اہم کام کرنے کی ضرورت ہے، فلم، موسیقی، آرٹ، صحافت اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کو بھی حلقہ اربابِ ذوق سے جوڑا جائے، ان سے اہم موضوعات پر مضامین لکھوائیں جائیں، اہم مورخین، ادیبوں اور قلم کاروں کے لیکچرز کا ارینج کیا جائے، بزرگ ادیبوں سے بھی گزارش کی جائے کہ وہ سال میں دو چار مرتبہ لازمی حلقے میں تشریف لائیں تاکہ حلقہ کا وقار دوچند ہو سکے۔
ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر ضیاء الحسن، غلام حسین ساجد اور مجلس عاملہ کے دیگر سینئرز سے گزارش ہے کہ ان نکات پر سنجیدگی سے سوچا جائے، سیکرٹری نواز کھرل ایک محنتی انسان ہیں، وہ یہ کام کر سکتے ہیں، ممبر شپ اوپن کریں، نئے لوگ جو سنجیدہ قلم کار ہیں، ان کی تخلیقات حلقے میں پیش کروائیں، انھیں ممبر بنائیں اور ان کے توسط سے حلقے کا نیٹ ورک وسیع کریں تاکہ لاہور بھر سے ادیب اس اہم مجلس کا حصہ بنیں۔
مختلف شہروں میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ حلقے کی شاخیں شروع کرنا ہوں گی، یہ کام ڈاکٹر امجد طفیل نے اپنے دور میں کیا تھا، اب مزید اس پر کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے تمام اضلاع میں حلقے کی شاخیں ہونی چاہیں اور وہ سب آپس میں مربوط بھی ہوں تاکہ بڑے پیمانے پر ادبی کام ہو سکے۔
حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں چائے بسکٹ پیش کیے جاتے ہیں، اس کے لیے بھی کوئی طریقہ کار بنانا ہوگا، یہ کام صرف سیکرٹری اور مجلس عاملہ ہی کیوں کریں، ہم سب ادیبوں کو اس کارخیر میں حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ یہ ادارہ مزید ترقی کرے اور اس سے وابستگان انتہائی بہتر طریقے سے ادب کی خدمت کر سکیں۔ ایسے افراد جو حلقہ اربابِ ذوق سے صرف ووٹ کی حد تک وابستہ ہیں ان سے بھی گزارش کی جائے کہ وہ حلقے میں وقت دیں، ناراض ادیبوں کے بھی تحفظات سنے جائیں اور ان پر بھی سنجیدگی سے سوچا جائے۔