دھوپ نہاتی بارش

کومل جوئیہ کی شعری کائنات سے تعارف یا مکالمہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا، سوشل میڈیا نے مضافات میں بیٹھے بہت سے باکمال قلم کاروں کو مرکز سے جوڑا اور ان کی تخلیقات کو دنیا بھر میں پہنچایا ہے، ورنہ ہمارے ہاں مرکز یا قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے مضافات کے قلم کاروں کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ سرکار کے قصیدے لکھنے والے، شعر بیچنے والے، ادبی اداروں کے سربراہان اور پرائیوٹ سپانسرزکی شان میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے آج بھی "معزز"ہیں اور مضافات کا قلم کار آج بھی مرکز میں آنے کے لیے اسی محنت سے گزر رہا ہے، جو اسے بیس سال پہلے کرنا پڑ رہی تھی۔ میں نے ڈیجیٹل میڈیایا سوشل میڈیا کو اس لیے کریڈٹ دیا کہ یہ وہ راستہ ہے جس نے بہت سے اچھے شاعروں اور نثر نگاروں سے ملوایا۔ آج پرائیویٹ سپانسرز اور بیرون ممالک میں موجود ادبی تنظیمیں ان قلم کاروں کو مدعو کرنے پر "مجبور" ہیں جنھوں نے مضافات میں رہتے ہوئے بغیر کسی سہارے اور بیساکھی کے، سچے شعر کی بنیاد پر نام بنایا۔
"دھوپ نہاتی بارش "کی خالق کومل جوئیہ بھی ایک ایسی ہی توانا اور منفرد آواز ہیں جس نے کسی سہارے اور بیساکھی کو قبول نہیں کیا، اس نے اپنا راستہ سب سے الگ بنایا اوراپنے اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، اس نے شاعری سے صرف شہرت نہیں، عزت بھی کمائی اور یہ کومل جوئیہ پر خدا کا خاص کرم ہے، ورنہ مشاعروں اور شہرت کے لالچ میں ہمارے شاعروں (مرد و زن)نے کیا کچھ نہیں کیا، ایک دکھی بھری داستان ہے۔
کومل جوئیہ نے جس تیزی سے ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنائی ہے، یہ اس کے شعروں کی بدولت ممکن ہوا، ورنہ ہمارے نام نہاد"ادبی استادوں"کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ آج بھی کبیر والا کے ایک چھوٹے سے گھر میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہوتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا، اس نے شاعری میں باوقار زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا، اس نے بیرون ممالک تنظیموں کے درجنوں مشاعرے محض اس لیے ٹھکرا دیے کہ اس کی باعزت اور قابلِ رشک زندگی پر حرف نہ آئے، اس نے ہر ایسے "استاد"کی دعوت کو بھی ٹھکرا دیا جو پس پردہ کسی گھنائونی سازش یا لابی کا حصہ تھا، اس نے ہر ایسے دوست سے بھی کنارہ کر لیا جو دوستی کی آڑ میں ڈنگ مارنے کا قائل تھا۔ کومل جوئیہ کی شاعری میں برکت بھی اسی لیے ہے کہ وہ کسی گروپ یا سازشی لابی کا حصہ نہیں، اس نے دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کی سازشوں کا بھی مقابلہ کیا اور بلاخوف لکھا:
میں ایسے اژدھوں کے بارے میں بھی جانتی ہوں
جنھوں نے دوستی کے روپ دھارے ہوتے ہیں
منسوب چراغوں سے، طرف دار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو، منافق بھی بلا کے
آپ ان اشعار سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کومل جوئیہ کو مضافات میں رہتے ہوئے کن تکالیف کا سامنا رہا، اپنے ہی قبیلے اور احباب کی طرف سے مگر اس نے لکھنا نہیں چھوڑا، اس کی زودگوئی کا ایک زمانہ معترف ہے، اس کے مزاحمتی اندازِ بیاں نے اسے بہت مسائل سے دو چار کیا، اسے اپنے ہی عزیزوں کی نفرت اور تنگ نظری کا سامنا رہا مگر وہ گھبرائی نہیں، اس نے اپنی تخلیقات کو اپنی طاقت بنایا اور اس طاقت کی بنیاد پر معاشرے کے جبر اور ناانصافیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کومل جوئیہ کی شاعری پڑھتے ہوئے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ معاشرے کی ایک خوف زدہ عورت ہے، وہ عورت ہے، اس چیز کا اسے ادراک ہے لہٰذا اس نے اپنے وقار اور معیار پر کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ شاعری اگرچہ ایک بڑا کام ہے مگر ایسے معاشرے جہاں آزادی اظہار رائے گناہ اور گستاخی بن جائے، وہاں شاعری کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور کومل جوئیہ نے بغاوت کا تمغہ بھی خوشی خوشی قبول کیا اور اپنی آواز کو مرنے نہیں دیا:
پنپ رہی ہے بغاوت سو تم پہ واجب ہے
ہماری آنکھیں نکالو! ہمارے سر کاٹو!
میں تو جو دیکھ رہی ہوں، وہی بولوں گی سدا
قید کر دیجیے مجھ کو لبِ آزاد سمیت
یوں تو ہر شاعر(مرد و زن) ہی خوبصورت ہی ہوتا ہے مگر" خوبصورتی" کا سابقہ شاعری کی بنیاد پر لگے تو عزت اور شہرت قابل رشک بن جاتی ہے اور اگرنام کے ساتھ سابقے لاحقے آپ کے عہدے، آپ کی ماڈلنگ، آپ کی پرفارمنس اور آپ کی مضبوط لابی کی بنیاد پر لگیں تو یقین جانیں وہ قابلِ ندامت اور قابلِ مذمت بن جاتے ہیں۔ کومل جوئیہ نے جتنے بھی اعزازات و القابات پائے، اس نے اپنی تخلیق کی بنیاد پر پائے اور وہ اس کے لیے قابل فخر بنے، اس کا راستہ روکنے والے، گالم گلوچ اور کردار کشی کرنے والے درجنوں سینئرز اور سینکڑوں معاصرین اپنی کمزور آوازوں کے نیچے دب گئے اور یہ توانا آواز اپنی الگ جگہ بناتے ہوئے بہت آگے نکل گئی۔
میں جب کومل جوئیہ کے تازہ شعری مجموعے"دھوپ نہاتی بارش"کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک ایک شعر پر رکا اور محترم سلیم کوثر کے اس جملے کا لطف لیا: "کومل جوئیہ نئی زمینیں تلاشتی ہے اور نئی مضمون نگاری کی جسارت کرتی ہے"۔ میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ کومل جوئیہ ایک ایسی تخلیق کار ہے جس کے ہاں امکانات کا ایک جہاں ہے، یہ نئی تراکیب اور تازہ کاری کے وہ سارے ہنر جانتی ہے جو ہمارے درجنوں"قدآور" تخلیق کار نہیں جانتے، کومل جوئیہ اپنے معاصرین میں بہت آگے کھڑی ہے۔

