"بانگِ درا" کا صد سالہ جشن
"بانگِ درا"، علامہ اقبال کا پہلا اردو مجموعہ کلام ہے جو ستمبر 1924ء میں پہلی بار شائع ہوا تھا، اس مجموعے کی اشاعت کو ایک صدی ہو چکی مگر اس کی اہمیت و افادیت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی، اس کے مضامین اور موضوعات آج بھی اس قدر اہم ہیں، جتنے ایک صدی قبل تھے۔ کتاب کے آغاز میں سر عبد القادر کا دیباچہ پڑھنے کے لائق ہے، میرا خیال ہے کہ علامہ کے فکر و فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس دیباچے کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ سر عبد القادر، علامہ کے سب سے قریبی دوست اور شب و روز کے ساتھی تھے، علامہ کے احوال و اثار اُن سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔
"بانگِ درا"کے مطالعہ سے ہی ہمیں علامہ کی فکرکے ارتقائی مدارج کا جامع اندازہ ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ علامہ کی اردو کتب میں "بانگِ درا"کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اس مجموعہ میں جہاں حب الوطنی اور قومی و ملی نظمیں موجود ہیں، وہاں علامہ کی سب سے اہم اور معروف نظم شکوہ اور جواب شکوہ بھی اسی مجموعے کا حصہ ہے جو مسدس کی ہیت میں ہے۔ شکوہ اور جواب شکوہ، بلاشبہ ایسی نظمیں ہیں جنھیں قیامت تک فراموش نہیں کیا جائے گا۔ "بانگِ درا" کا مطالعہ کرتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ یہ نظمیں بلند آواز میں پڑھی جائیں، بالکل ایسے جیسے علامہ کا بلند آہنگ لہجہ اس کتاب کے ہر مصرعے سے جھلک رہا ہے۔
"بانگِ درا"کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا دور 1905ء تک، دوسرا دور 1905ء سے 1908ء تک، تیسرا دور1908ء سے 1926ء تک، ہر دور کی نظمیں کا ذائقہ اور مزاج مختلف ہے، پہلے، دوسرے یا تیسرے دور کی نظمیں ہو ں یا پھر کتاب کے آخر میں شامل ظریفانہ قطعات، علامہ کے ذہنی و فکری ارتقاء کو سمجھنے میں یہ کلام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
پہلے دور میں علامہ کی شاعری گل و بلبل کی رنگین داستان نہیں بلکہ مقصدی شاعری ہے، یہاں وہ ہندوستانی قومیت کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ترانہ ہندی جیسے خوبصورت نظم تخلیق کرتے ہیں، دوسرے دور یعنی قیام یورپ کے دوران ہمیں وطنیت و قومیت پر نظمیں نہیں ملتی کیوں کہ اس زمانے میں علامہ شاعری ترک کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، یہ دور ان کے ذہنی انقلاب کے اعتبار سے بہت ہی اہم دور ہے، فکر میں ایک اضطراب نظر آتا ہے۔
یورپ کی چمک دمک اور مادی ترقی میں روحانیت کا فقدان دیکھ کر ان کے اپنے خیالات میں ذبردست تبدیلی آئی۔ یورپ سے واپسی کے بعد یعنی 1908ء سے 1926ء تک کا وہ دور ہے جب علامہ کا جھکائو اسلام کی طرف ہے، اسلام ان کے نزدیک اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ایک مکمل مذہب ہے، یہی وہ زمانہ ہے جب علامہ کا ساز بدلا اور وہ ترانہ ہندی سے ترانہ ملی کی جانب بڑھے۔
"بانگِ درا" میں بچوں کے لیے نو خوبصورت نظمیں بھی شامل ہیں، اردو کے اس اولین مجموعہ کلام میں ایسی جاذبیت، کشش اور سحر انگیزی ہے جو باقی مجموعوں میں شاید اس طرح نہیں ہے، "بانگِ درا"میں علامہ جیسے فطرت سے محبت کر تے نظر آتے ہیں اور بچوں کے لیے سبق آموز نظمیں لکھ رہے ہیں، وطن سے محبت میں ملی و قومی شاعری کر رہے ہیں، مختلف شخصیات پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں، دیگر مجموعوں میں ایسا کم کم دیکھا گیا۔
"بانگِ درا" کی ولولہ انگیز شاعری نے قوم کے تنِ مردہ زندگی کی ایک نئی روح پھونکی، اسی کتاب کے توسط سے علامہ کے فکر و فلسفے اور تعلیمات نے ہندوستان کی پژمردہ قوم کوزندگی کا احساس دلایا، کتاب میں شامل ہمالہ، گلِ رنگیں، عہد طفلی، ابرِ کوہسار، اخترِ صبح، حسن و عشق، ایک شام، رات اور شاعر، تنہائی، جگنو، صبح کا ستارہ، محبت، فراق، ایک آرزو، شبنم اور ستارے اور کنارِ راوی جیسی شاہکار نظموں میں ہمیں جہاں فطرت پرستی نظر آتی ہے، وہاں ان نظموں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے اندر ملی و قومی محبت کس درجہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
انگریزی، اردو اور فارسی کے کلاسیکی ادب سے علامہ کے گہرے شغف نے ان کی تخلیقی زندگی کو جلا بخشی اور ان کی اردو شاعری میں روشنی اور چمک میں ان کے مطالعے کا بہت اہم کردار ہے۔ "بانگِ درا"میں ہی مرزا غالب، سید کی لوحِ تربت، داغ، شبلی و حالی، عرفی اور شیکسپیئر جیسے نابغوں پر شاہکار نظمیں شامل ہیں، ان نظموں کے مطالعے سے ہمیں علامہ کا ایک بالکل مختلف رنگ نظر آتا ہے۔ "بانگِ درا"کی شاعری کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بنی نوع انسان کو ایک حیاتِ نو کا پیغام دیا اور انسان کو اپنی دریافت کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کروایا۔
اس مجموعے کی نظمیں جہاں مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاد دلاتی ہیں، وہاں فکرِ فردا کے لیے بھی راستہ ہموار کرتی ہیں۔ "بانگِ درا"جس کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے، اقبال شناس اس حوالے سے سیمینارز اور جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں، وہاں ہمیں کوئی ایسا سلسلہ بنانا ہوگا کہ علامہ کا پیغام نئی نسل تک کیسے منتقل کیا جائے، نئی نسل جس کے نزدیک شاعری کے معنی ہی مختلف ہیں، نئی نسل جو علامہ کے کام اور پیغام دونوں سے ناواقف ہے، اسے اس عظیم شاعر سے کیسے جوڑا جائے، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بہ طور مدرس میں نے اس چیز کو بہت شدت سے محسوس کیا کہ ہمارے عہد کا نوجوان علامہ کا مکمل طور پر فراموش کر چکا ہے، اس فراموشی نے ہی ہمیں ملی، مذہبی اور سیاسی طور پر بانجھ کر دیاہے، ہمیں اس جانب توجہ کرنی ہوگی۔