عالمی یوم ِ اساتذہ، بے حس حکومت
5 اکتوبر کواستاد کی خدمات کے اعتراف ے طور پر منایا گیا۔ ایک حقیقی استاد جو معاشرے کی تعمیر و ترقی اور نشوونما کے لیے اپنی زندگی کا انتہائی قیمتی وقت قوم کے مستقبل کے نام کر دیتا ہے، یہ معاشرہ اسے بدلے میں کیا دیتا ہے؟ یہ دن اس چیز کا متقاضی ہے کہ ہم جہاں استاد کی عظمت اور خدمات کا اعتراف کریں، وہاں ان مسائل پر بھی بات کریں جو اس پس ماندہ معاشرے میں ایک استاد کو درپیش ہیں۔
یہ معاشرے دولت، شہرت اور مادی ترقی کی بنیاد پر ایک کم پڑھے لکھے انسان کو بھی عزت دے لیتا مگر بات جب استاد کی اہمیت کی آتی ہے تواس معاشرے کا عمومی رویہ انتہائی شرم ناک ہوتاہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، بیوروکریسی بنتی بگڑتی رہتی ہے۔ نظام میں تبدیلیاں بھی آتی ہیں اور ادارے اپنی ملازمت بچانے کے لیے آئینی ترامیم تک کروا لیتے ہیں، اگر کچھ نہیں ہوتا تو اس قوم کے استاد کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ ہر حکومت جب معاشی بوجھ کم کرنے کا سوچتی ہے تو اس کا پہلا شکار استاد ہو۔
استاد ایک مزدور ہے، سب سے کم دیہاڑی لینے والا مزدور، جس کی تنخواہ کا عالم یہ ہے کہ جب ایک استاد تیس چالیس سال قوم کی خدمت کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوتا ہے، اس کے پاس اتنے ہی پیسے ہوتے ہیں کہ یا اپنا ذاتی گھر بنا لے یا پھربچوں کی شادیاں کر لے۔ ایک استاد تین سے چار عشروں تک اس سسٹم کی خدمت کرتا ہے اور بدلے میں اس کا اسٹیٹس کیا ہے؟ ایک بیوروکریٹ، ایک فوجی جرنیل، ایک جج اور ایک سیاست دان، یہ سب استاد کے قدموں کی خاک برابر ہیں مگر آپ استاد کا موازنہ مذکورہ چار شعبوں سے کریں اور خود فیصلہ کریں کہ استاد کہاں کھڑا ہے؟
آپ ان ملکوں کا سوچیں جہاں استاد کا پروٹوکول ایک ممبر قومی اسمبلی یا جج جتنا ہوتا ہے، جہاں سرکاری اداروں میں استاد کے لیے بیٹھنے کی جگہ مخصوص ہوتی ہے، جہاں بینکوں میں استاد کے لیے ایک الگ سے نشست رکھی ہوتی ہے، استاد کی گاڑی کو سرکاری نمبر پلیٹ الاٹ ہوتی ہے جسے کہیں بھی روکا نہیں جاتا ہے، جہاں استاد اگرعدالت پہنچے تو جج تک کھڑا ہوجاتا ہے۔ سرکاری مشینری اپنے فیصلوں میں سب سے اوپر استاد کو رکھتی ہے لیکن جس معاشرے کا میں استاد ہوں، وہاں استاد ایک ذلت آمیز زندگی گزار رہا ہے، کبھی صوبائی حکومتوں کے ظلم و ستم اور کبھی وفاق کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے، کبھی سیمی گورنمنٹ اداروں کی من مانیوں کی وجہ سے۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا جہاں استاد کو احتجاج کرنے پر ہتھکڑی لگائی جاتی ہو، شیلنگ کی جاتی ہے، ڈنڈے برسائے جاتے ہیں، جہاں بہانے بہانے سے استاد کی عز تِ نفس مجروح کی جاتی ہے مگر پاکستان ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں استاد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، یہ ایک مزدور ہے اور مزدور بھی استحصالی اور غیر منصفانہ نظام کی چکی میں پسنے والا اور جب یہ احتجاج کے لیے باہر نکلتا ہے تو سرکار بات سننے کی بجائے دھمکیوں پر اتر آتی ہے۔
آپ پنجاب حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیاں دیکھیں لیں، گزشتہ دس سال سے ایجوکیٹرز کی بھرتی نہیں کی گئی، آپ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی بھرتیوں کی تفصیل دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا شعبہ تعلیم کہاں کھڑا ہے۔ پہلے پبلک سروس کمیشن سیٹیں انائونس کرتا ہے، بچوں سے فیسیں ہتھیاتا ہے اور پھر سیٹیں کینسل کر دی جاتی ہیں۔
ہماری سرکاری و نجی جامعات سے ہر سال تقریباًڈیڑھ لاکھ گریجویٹ فارغ التحصیل ہو رہا ہے اور اس ڈیڑھ لاکھ کے لیے ہم ہر سال دس ہزار بھی نوکریاں پروڈیوس نہیں کر رہے، ایسے میں یہ ڈیڑھ لاکھ نوجوان کہاں جائے گا، یا ڈکیٹی کرے گا یا پھر بھنگی اور چرسی بنے گا، تیسرا حل ملک سے بھاگنا ہے اور اس کے لیے بھی سستا حل" ڈنکی" ہے جس کے بعد نوجوان گھروں کو نہیں لوٹتے، ان کے لاشے لوٹتے ہیں۔
آپ سوچیں کہ گزشتہ دس سال سے ہم نے سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا رکھی ہے، پنجاب کی پچاس سے زائد جامعات کئی سال بغیر وائس چانسلر کے چلتی رہی ہیں اور جب وائس چانسلر بھرتی کرنے کا وقت آیا تو معاملہ پھر جھگڑے پر ختم ہوا، گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب دونوں برسرپیکار ہیں، کیا ایسے چلتا ہے تعلیمی نظام؟ گزشتہ دورِ حکومت میں کچھ جامعات نے سلیکشن بورڈز تک کر لیے تھے مگر گزشتہ ایک برس سے وہ معاملہ اس لیے زیرِ التوا ہے کہ پنجاب کی مشینری وہاں اپنی مرضی کی بھرتیوں کی خواہش مند ہے اور ایچ ای سی اس پر رضا مند نہیں۔ اگر جامعات تک کی بھرتیاں مشکوک بنا دی جائیں گی تو بتائیں ایک استاد کیا کرے گا، اگر ایجوکیٹرز کی بھرتیوں پر پابندی رہے گی تو بتائیں اس ملک کا دو کروڑ نوجوان کہاں جائے گا؟
ہم جہاں اپنے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں، وہاں ہمیں ایک استاد کے مسائل کو بھی موضوع سخن بنانا ہوگا، استاد کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی کیوں کہ پاکستان کے تمام شعبوں میں، یہ شعبہ سب سے زیادہ پس ماندہ اور خستہ حال ہے، اس کی سب سے بنیادی وجہ حکومتی ناہلی ہے۔ وزیر اعلیٰ ججوں، جرنیلوں، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی مراعات کم کرنے کی بجائے شعبہ تعلیم پر شب خون مار رہی ہیں۔
دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، ڈیڑھ کروڑ نوجوان ڈگریاں لے کر بھی بے روزگار ہیں، ان سب کی ذمہ دار پنجاب اور وفاق حکومت ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایجوکیٹرزاورایچ ای ڈی کے تحت لیکچررز کی بھرتیاں ہیں، جامعات کے زیر التوا سلیکشن بورڈز ہیں، اگر رانا صاحب بھی پنجاب حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کو تبدیل نہ کروا سکے تو لوگ یہ بھرتیاں یاد نہیں رکھیں گے، نام انہی کا زندہ رہتا ہے جو کام کرتے ہیں، ورنہ اس پچیس کروڑ کے ملک میں کتنے وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ آئے اور گئے۔