Saturday, 29 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Tadween e Quran

Tadween e Quran

تدوین قرآن

روایات کے مطابق تدوین قرآن کی ضرورت صحابہ کو اس وقت محسوس ہوئی جب بہت سے حفاظ جنگ یمامہ میں شھید ہو گئے تھے، یعنی نحن لحافظون کا دعویٰ حفاظ کی یاداشت پر ہی منحصر تھا روایات کے مطابق، جن کے جنگ میں شھید ہونے کے ساتھ ہی قرآن کی حفاظت خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اب کنز العمال کی ایک روایت ملاحظہ کیجیے "حضرت عمر نے ایک آیت کے بارے لوگوں سے دریافت کیا تو کہا گیا وہ آیت تو فلاں صحابی کے پاس تھی جو جنگ یمامہ میں شھید ہو گے تھے، حضرت عمر نے کہا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون"۔

یعنی وہ آیت صحابی کی شہادت کے ساتھ ہی دنیا سے ناپید ہوگی۔ اگر اہل تشیع کہیں کہ پورا قرآن آخری امام لائیں گے تو وہ فاسق اور صحاح ستہ کہیں کہ قرآن کے دس پارے بکری کھا گی تھی، یہ پورا قرآن نہیں ہے تو ان کا دعویٰ فاسق، تو یہ کیا ہے۔

دس پاروں کا بکری کے کھا جانے سے یاد آیا، علامہ تمنا عمادی نے چالیس پاروں والے قرآن کا ذکر اپنی کتاب اعجاز القرآن میں کیا تھا، جو پٹنہ کی اورینٹل لائبریری میں پڑے ہیں۔

دہلی والے خواجہ حسن نظامی بھی اپنے رسالے "منادی" میں حضرت علی کے ترتیب دیئے قرآن کے نسخے کا ذکر کر بیٹھے تھے، جس کی آیات کی ترتیب مروجہ ترتیت کے برعکس نزول کے حساب سے تھی، یعنی اقرا باسم ربک الذی خلق سے شروع ہوتا تھا اور الیوم اکملت اس کی آخری آیت تھی۔

خواجہ صاحب بڑے پیر تھے، ایک دفعہ جھٹکے سے گردن توڑ کر مارے جانے والے جانور کو حلال کرنے کا فتویٰ دے بیٹھے تو عبد المجید سالک کی خوفناک ظرافت کے نشانے پر آگے اور سالک نے اپنے رسالے میں ان کا نام "جھٹکا المشائخ" رکھ دیا۔

جھٹکا المشائخ کے بیان کردہ نسخے کے بارے میں پڑھ کر مجھے جھٹکا اس لیے نہیں لگا کیوں کسی روایت میں حوالہ ذہن میں نہیں آرہا پڑھا تھا۔ حضرت ابوبکرکے خلیفہ بن جانے کے بعد سیدنا علی گوشہ نشین ہو گے تھے اور عہد کیا کہ "اس وقت تک میں چادر نہ اوڑھوں گا بجز نماز کے وقتوں کے جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوں"۔

اسی نسخے کے متعلق اہل تشیع کے ہاں روایت ہے کہ حضرت علی کے جمع کردہ قرآن کو ابو بکر و عثمان رض نے قبول نہ کیا اور زید بن ثابت سے نسخہ لکھوایا۔

مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے حضرت علی کو بھی قرآن جمع کرنے کی فکر تھی، حضرت صدیق و عثمان بھی مصحف جمع کرنے کے بارے میں اتنے فکر مند تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور کے زمانے میں قرآن مدون نہ ہوا تھا مگر سوال یہ اٹھتا ہے تو پھر کاتبین وحی کس کام کے لیے حضور نے رکھے تھے، وحی کی تدوین نبی کی زیر نگرانی ہوتی ہے نہ کہ غیر نبی اصحاب کے ہاتھوں۔

مودودی صاحب سے ترجمان القرآن میں ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ قرآن کی تدوین آپ ﷺ کی وفات کے بعد کیونکر ہوئی مودودی صاحب نے جواب دیا تھا "عرب یاداشت کے زریعے چیزیں محفوظ کرتے تھے اس لیے ابتدائی مسلمانوں کو اس کی کتابت کی ضرورت محسوس نہ ہوئی"۔

مگر سوال یہ ہے کہ قرآن اپنے دعوے کے مطابق صرف عربوں کے لیے اترا نہ تھا، کیا خدا نے وحی کی حفاظت کا انتظام غیر نبی اصحاب کی یاداشت پر چھوڑ دیا تھا، پھر صحفاً مطہرہ کیا تھے، صحیفہ دو جلدوں میں بند مسودے کو کہا جاتا ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت حضور نے قرآن کو صحیفے کی شکل میں رکھا ہوگا، فی کتاب مکنون کیا چیز تھی اگر قرآن کی تدوین حضور کے مصحف عثمانی کی شکل میں ہوئی۔

فی رق منشور کیا تھے، رق منشور عربی میں پتلی جھلی والے چمڑے کو کہا جاتا ہے جس سے کتابت کا کام لیا جاتا۔ اس آیت کا کیا جواب ہوگا۔ انا علینا جمعہ وقرانہ، قرانہ سے مراد لکھی ہوئی آیت کو پڑھنا ہوتا ہے نہ کہ حافظے کی مدد کے تحت پڑھنا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت وہ آیات کہاں لکھی ہوئی تھیں جنھیں دیکھ کر پڑھا جاتا تھا، اگر ابتدائی مسلمان کتابت سے زیادہ حافظے کے ذریعے قرآن محفوظ کرتے اور کتابت کا رواج نہ تھا، حضرت عمر کی قبول اسلام والی حدیث تو بلکل ابتدائے اسلام کی ہے۔

جس کے مطابق وہ اپنی بہن کے گھر جاتے ہیں تو سورہ مریم کا لکھا ہوا صحیفہ تلاوت کر رہی ہوتی ہیں، جسے جب حضرت عمر ہاتھ لگانے واسطے آگے بڑھاتے ہیں تو ان کی بہن کہتی ہیں کہ قرآن کو بغیر وضو ہاتھ نہیں لگاتے۔

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلکل ابتدائے اسلام سے ہی مکی دور میں جب قرآن کا بالکل تھوڑا سا حصہ ہی نازل ہوا تھا اس وقت سے اس کی کتابت ہو رہی تھی۔

حضور کی حیات میں ہی مسجد نبوی میں ہی سرکاری مصحف رکھا ہوتا تھا ایک ستون کے پاس، جس ستون کا نام ہی "اسطوانتہ المصحف" پڑ گیا تھا یعنی مصحف والا ستون، اس مصحف کا ذکر بخآری، مسلم، مسند احمد، وفاا لوفا کیں بھی موجود ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر حضور ﷺ نے کاتبین وحی کے ذریعے قرآن کی کتابت جیسا نبوی کام اپنی زیر نگرانی مکمل کروا لیا تھا تو پھر آپ کی وفات کے بعد ابوبکر و عثمان کو دوبارہ سے تدوین قرآن کی ضرورت کیوں پڑی، کیا نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ انھیں مصحف نبوی پر اعتبار نہیں تھا جو خود سے دوبارہ مدون کرنے بیٹھ گے۔ اس سے دلچسپ بات یہ قرآن کے قدیم صحیفوں میں سے سارے صحیفے دور عثمان کے بعد کے ہیں۔ پھر کاتبین وحی کے ہاتھوں لکھا وہ صحیفہ کدھر گیا جسے حضور نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، کیا امت کے نزدیک زیادہ مستند صحیفہ حضرت عثمان کا مدون کردہ ہوگا یا خود نبی کریم ﷺ کا۔

لے دے کے دور عثمانی سے پہلے کا لکھا ایک ہی مسودہ ملتا ہے جو برمنگھم مینو سکرپٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا خط خط حجازی ہے، وہ بھی غالباََ میں غلط نہ ہوں تو سورہ مریم کی چند آیات ہی ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ قدیم ترین نسخے پھر کدھر گے۔

اصول کافی میں اس کا جواب دلچسپ ہے، اصل قرآن آخری امام ہی لائیں گے۔

جتنا محدثین نے قرآن کی تاریخ کو دلچسپ موڑ دیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، یعنی کہ تدوین وحی صحابہ انجام دے رہے ییں۔ وحی غیر متلو محدثین کی پلٹون تیار کر رہی ہے، قرآن پر نکتے سو سال بعد جا کر ابو الاسود دولی لگا رہا ہے، اعراب جاکر حجاج بن یوسف نے لگائے، یعنی محدثین و مورخین کے نزدیک حضور اکرم ﷺ نے تدوین و کتابت جیسی حساس ذمہ داری کو امتیوں کے واسطے چھوڑ دیا۔

سابقہ تحریر پر ایک فاضل دوست نے پوچھا کہ تم مفسّرین پر اعتراض کرتے ہو حل بتاؤ کہ قرآن کو بغیر تفسیر سے کیسے سمجھا جائے جب آیات کا پس منظر ہی نہ پتہ ہو۔

میری عرض ہے کہ قرآن سے فلسفیانہ و عقلیانہ امیدیں لگائے بغیر صرف مذہبی کتاب سمجھ کر ذکرکے لیئے پڑھا جائے۔ نہ کہ عقل کی تسکین کے لیے۔ اگر پس منظر میں گئے تو تدوین آیات تو دور کی بات روایات کے حساب سے تو الفاظ پر لگے اعراب اور نقطوں کے پس منظر میں اتنی الجھنیں ہیں کہ ان کے آگے ہی مار مان جائیں گے۔ کیوں کہ مبینہ غیر منقوط قرآن میں یعلمون و تعلمون کا فرق صرف نقطے ہی ہیں، ح، ج، خ کے درمیان فرق نقطے ہیں، ابو الاسود دولی یہ فرق دہائیاں گزر جانے کے بعد کیسے کر پایا۔

ایک نقطہ محرم کو مجرم بنا دیتا ہے، اگر بات اعراب پر شروع کردی تو محرم کو مرحوم بنتے دیر نہیں لگے گی۔

Check Also

Angela Merkel Autobiography

By Rauf Klasra