Monday, 07 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Rajpal Bukhari

Rajpal Bukhari

راجپال بخاری

مولانا سلیم اللہ خان پاکستان کے نامور علماء میں سے تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی، جامعہ فاروقیہ کراچی جیسے ادارے کی بنیاد رکھی، وفاق المدارس کے امیر رہے، کشف الباری جیسی ضحیم اور مفصل کتاب لکھی۔ مولانا سلیم اللہ خان اپنی کتاب کشف الباری کے باب الطلاق صفحہ 418 میں جوینہ یا ام امیمہ کے واقعہ پر ایک اشکال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں"حضور ﷺ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیں، حضور کا کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنا، اسے لے آنا اور اس میں رغبت کا اظہار کرنا نکاح کے لئے کافی ہے"۔

کیا منصب نبوت کے لیے یہ زیب دیتا ہے کہ اس کے متعلق اس طرح کے دعوے کیئے جائیں کہ وہ کسی خاتون کی مرضی کے بغیر اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ کیا یہ گستاخی نہیں۔

گستاخ صرف راج پال نہیں تھا۔ ناموس رسالت کی تحریکیں کبھی امام بخآری کے خلاف بھی چلائیں، کبھی صحیح مسلم پر بھی 295c کے پرچے کٹوائیں۔ کبھی مولانا یوسف کاندھلوی پر توہین صحابہ کرنے کرنے پر احتجاج کریں جو کہتے تھے کہ حضرت علی نے اپنی کم عمر بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر کے پاس بھیج دیا، حضرت عمر نے ان کی پنڈلی سے کپڑا ہٹانا چاہا تو وہ حضرت عمر کو آنکھ پر تھپڑ مارنے کی دھمکی دے کر بھاگ آئیں (بحوالہ حیات الصحابہ 853)۔

کیا توہین صحابہ کے وارنٹ صرف ایک ہی فرقے کے خلاف نکلتے ہیں، اپنے اکابر کو استثنا حاصل ہے۔

راج پال گستاخی کرے تو اسے ترکھان کا پتر پار لگا دے مگر امام بخآری اسی طرز کی باتیں لکھیں تو ان کی کتابیں اصح کتاب بعد کتاب اللہ بن کر وحی خفی کا درجہ اختیار کر لیں۔

اصل میں ہر محدث میں چھوٹا موٹا سا راج پال چھپا بیٹھا تھا۔ اگر کوئی ہمارے باپ کے خلوتی مشاغل کو مصلے پر بیٹھ کر بیان کرے تو ہم گھسیٹ کر اسے پھینٹا لگا دیں گئے مگر نبی کی خلوت کے وہ وہ قصے اکابر لکھ دیں تو وہ محدث اعظم قرار پائیں۔

قرآن میں حیض کو نجس کہا گیا ہے اور دوران حیض بیویوں سے دور رہنے کا گیا ہے۔ مگر دوسری طرف بخآری صاحب کتاب الحیض جلد اول میں بیان فرماتے ہیں کہ "حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ حیض کی حالت میں مجھے تہہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے"۔

قرآن کہتا ہے کہ حالت حیض میں دور رہو مگر بخآری صاحب کے مطابق تو حضور قرآن کی اس آیت ہی عمل پیرا نہیں تھے۔

آگے چلئے بخآری میں ہی حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور ایک دن اور رات میں ہی گیارہ بیویوں کے ہاں دورہ کر لیتے تھے، حضرت قتادہ نے پوچھا کہ کیا آپ اس سب کی طاقت رکھتے تھے، حضرت انس کہتے ہیں کہ حضور تیس مردوں کی طاقت رکھتے تھے۔

دوسری طرف قرآن کہتا ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ تفصیل سے درج ہے صحیح مسلم میں آپ وہ واقعہ پڑھیں، صحابہ کے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا اور ایک دوسرے کے بارے میں کہہ گئے الفاظ پڑھیں، ایک طرف حضور کی تدفین بھی نہیں ہوئی اور دوسری طرف خلافت کے لیئے جھگڑا چل رہا ہے۔ اسے پڑھ کر لگتا ہے کہ اللہ تو ان سے راضی تھا مگر وہ ایک دوسرے سے راضی نہیں تھی۔ مودودی خلافت و ملوکیت لکھ دے تو وہ رافضی بن جائے مگر امام مسلم وہ سب کچھ لکھ دیں تو پھر انھیں کیا کہیں گئے۔

جن کی کتابیں اصح کتاب بعد کتاب اللہ ہیں ان میں تو یہ درج ہے کہ حضرت عائشہ پردہ تان کر اپنے بھائی اور ابو سلمہ کو شرعی غسل کا عملی طریقہ بتاتی تھیں۔ کیا کوئی بھائی اپنی بہن سے شرعی غسل کا عملی طریقہ اس طرح سیکھنا گوار کر سکتا ہے۔ جہاں یہ لکھا ہو حضور باون سال کی عمر میں نو سال کی بچی یعنی حضرت عائشہ سے نکاح فرمائیں وہاں راج پال، سلمان رشدی یا ٹیری جونز کی ضرورت نہیں رہتی وہاں اکابر ہی کافی ہوتے ہیں۔ جو کبھی موسیؑ جیسے نبی کے بارے میں یہ لکھ دیتے ہیں موسیؑ اپنے جسم کو بہت ڈھک کر رکھتے تھے حیا کی وجہ سے قوم کو شک ہوا حضرت موسی کو کوئی پوشیدہ بیماری ہے جس کی وجہ اپنے جسم کو اتنا چھپاتے ہیں۔ خدا نے حضرت موسیٰ کی صفائی اس طرح دی جب انھوں نے نہانے کے لیے پتھر پر کپڑے رکھے تو پتھر بھاگ اٹھا اور موسی اس کے پیچھے بھاگنے لگے یہاں تک قوم کے لوگوں نے ان کے بے عیب جسم کو دیکھ لیا۔

کیا خدا نے اپنے جلیل القدر نبی کو قوم کو سامنے برہنہ کر دیا تھا شک دور کرنے کے واسطے، یہ کیا ہے۔ اگر ہمیں توہین توہینِ کھیلنے کا بہت شوق ہے تو پھر اپنی منجی کے نیچے پہلے ڈانگ پھریں۔ کیونہ توہین کا جو پیمانہ آپ نے مقرر کیا ہے اس کے نتیجے میں صحاح ستہ کی ساری کتابیں بھی مجرم قرار پائیں گی۔

میں تو ان روایات کو توہین نہیں قرار دیتا۔ چایے پرویز و یا ڈاکٹر غلام جیلانی برق سب ان روایات کو بنیاد بنا کر انکار حدیث کرتے رہے مگر کسی نے یہ نہیں بتایا محدثین حضور یا صحابہ کے متعلق اتنا بولڈ کیوں لکھا۔ کیا انھیں ناموس رسالت کے متعلق علم نہیں تھا۔ پھر وہ کیوں نبی کے بیڈ روم کی تفصیل تین سو برس گزر جانے کی بعد مبالغہ آمیز انداز میں حدیث کے نام پر لکھتے چلے گئے۔ جو قرآن اور عربی کلچر سے اتنی مطابقت نہ رکھتی تھیں اس لیے جب ہم ان روایات کو پڑھتے ہیں تو چونک جاتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی سارے بڑے محدثین میں سے شاز و نادر ہی کوئی عربی تھا۔ زیادہ تر عجمی محدث تھے۔ اسلام کے بعد عرب میں کوئی بڑا ادب تخلیق نہ ہوسکا تھا۔ عرب کی قدیم شاعرانہ چنگاری کو اسلام نے بجھا دیا تھا۔ سیرت کی پہلی کتاب لکھنے والا ابو اسحاق بھی عجمی تھے۔ پہلی تاریخ لکھنے والے امام طبری بھی عربی نہ تھے۔ اسلام کے بعد لٹریچر کی زرخیزی عرب سے نکل کر فارس میں منتقل ہوگئی تھی، شاہنامہ فردوسی، مثنوی سے لے کر داستان و بوستان تک سارا بڑا ادب مسلم دنیا میں صرف ایران میں ہی تخلیق ہوا۔

عجمی مذاھب میں دیوتاؤں کی جنسی زندگی کا بہت ہی کھلے ڈھلے اور بولڈ انداز میں تذکرہ ہوتا۔ مثلا یونان کے دیوتا زیوس کو ہی دیکھ لیں، اس کی جنسی مشاغل کا تذکرہ پڑھ کر آپ چونک جائیں گئے۔ جیسے یونانی میتھالوجی میں ہے زیوس بادشاہ Tyndareus کی بیوی کے پاس آتا ہے، اس کو بہلا پھسلا کر اس سے جنسی تعلق قائم کرکے اس حاملہ کر دیتا ہے۔ زیوس کے متعلق اسی طرح کے بے شمار واقعات لکھے ہیں۔

اسی طرح ہندوازم میں دیوتا شوا کی جنسی تعلقات کا ذکر بہت ہی عریاں ہے۔ شیوا پران میں دیوتا برہما کے متعلق لکھا ہے کہ وہ شیوا کی بیوی پر نظر رکھتا تھا۔

کئی دیوتاؤں کی درجنوں بیویاں ہوا کرتیں۔

شیوا کسی خاتون پر فریفتہ ہو جاتا ہے، اس کا پیچھا کرکے اس میں منی خارج کر دیتا ہے جس کے نیتجے میں ہنومان پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح کی نظریات دیوتاؤں یا اوتاروں کے متعلق پرانے غیر عربی مذاہب میں پائے جاتے تھے۔ مگر جب اسلام ان علاقوں میں آیا اور لوگوں نے اسے قبول بھی کر لیا مگر ان میں سے پرانے دیوتا اتنی جلدی نہ نکل سکتے تھے۔ اس لیے ان کے کسی عربی نبی کے متعلق بھی اس طرح کی روایات قبول کرنا آسان تھا۔

یہی وجہ ہے محدثین کی ایک پوری کھیپ یہ روایات لکھ کر بھی راج پال بننے سے بچ گئے وگرنہ بخآری بھی کب کے راج پال بن چکے ہوتے۔

Check Also

Khushi Ka Software Update Kijiye

By Muhammad Zeashan Butt