Sunday, 05 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tauseef Rehmat
  4. Dil Darya

Dil Darya

دل دریا

بچپن میں اکثر ایسی ہی کہانیاں سننے کو ملتی تھیں جن میں اکثر کوئی دیو کسی شہزادی کو اٹھا لے جاتا یا کوئی ظالم جن کسی ملک پہ حملہ کر دیتا اور پھر کسی دوسرے دیس کا نیک دل شہزادہ راہ بھٹک کے وہاں آتا تو وہاں کی رعایا کی افسردگی اُسے شہزادی کو یا اس علاقے کو جن سے آزاد کرانے پہ مجبور کر دیتی۔ کوئی بہت ہی سیانی عمر کا بابا اس کو بتاتا کہ اس جن کی جان اک طوطے میں ہے۔ جب تک اس طوطے کی گردن نہ مروڑی جائے گی تب تک اس مشکل سے جان نہیں چھوٹے گی۔ پُرعزم شہزادہ فتح کی آس پہ نکلتا اور اپنے تئیں سب مشکلات اور مصائب سے نپٹتا، خوفناک وادیوں سے گزرتا، بلاوَں کا قلع قمع کرتے ہوئے آخرکار کوہ قاف کے اس طوطے تک پہنچ جاتا، جس میں اس جن کی جان ہوتی۔ اِدھر شہزادے نے طوطے کی گردن مروڑی اور اُدھر خوشحالی کا آغاز ہوگیا۔

کہانی کار پورا زور لگاتا ہے کہ سامعین کہانی اور اس کے کرداروں سے جڑے رہیں۔ وہ ہر طرح کی مشکلات اور صعوبتوں کا ذکر ذرا زور دے کے کرتا ہے کہ سننے والے کی دلچسپی قائم رہے۔ کہانی کے کرداروں کو پیش آنے والے مسائل کو خصوصی لفاظی کا تڑکا لگا کے پیش کیا جاتا ہے کہ سامعین متجسس رہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ کہانی کار دلچسپی کا عنصر اور سامعین کی توجہ قائم رکھنے کو کہانی میں نئے موڑ اور نئے رجحانات کے ساتھ ساتھ معاون کرداروں کو بھی شامل کر لیتا ہے۔ طوطے کے ذریعے جن یا دیو کو اس کے منطقی انجام پہ پہنچا دینے کے بعد کہانی کار ایک لازوال جملہ بولتا ہے کہ: اس کے بعد سب ہن٘سی خوشی رہنے لگے۔

بچپن کی ہر کہانی کا انجام ہن٘سی خوشی پہ ہی ختم ہوتا تھا۔ جوں جوں سن بڑھتا ہے تو آس پاس کی سچائیوں اور زمانے کی کٹھنائیوں کا ادراک ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھرنیوٹن کا بتایا ہوا تیسرا قانونِ حرکت حرکت میں آتا ہے۔ فلسفے کا آغاز بھی شاید یہیں سے ہوا ہے کہ عمل اور ردعمل پہ ہی اس کی سب عمارت کھڑی ہے۔ عمل ہو تو ردعمل کب، کہاں، کیونکر اور کتنا دینا ہے۔

اس سارے منظرنامے کو دور سے اور بالخصوص اوپر (ٹاپ ویو) سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پورا منظر نامہ صحیح، روشن اور واضح نظر آئے۔ یہاں کہانی کار (اللہ رب العزت) نے اپنے مطلق علم (ایبسلیوٹ نالج) کی بدولت سب انسانوں کی کہانیاں ' کردار ' پیش آنے والے مسائل و مصائب، معاون و خصوصی کردار، غمی و خوشی کے سبھی پل، وقت کے گزرنے کی رفتار اور تعلقات کی نہج، مختص و تفویض شدہ رزق کی تفصیلات الغرض سب اس نے اپنی کتاب (لوحِ محفوظ) میں لکھ رکھا ہے۔

یہاں کی کہانی کے کرداروں کے اندر کی جبلت ایک دوسرے سے منفرد ہے۔ تو اس عظیم المرتبت کہانی کار نے سب کو ایک ہی راستے کے توسط سے ایک ہی انجام سے دوچار کرنے کے لئے جسم میں ایک چار خانوں کا دل لگا رکھا ہے۔ جس کو کام بظاہر تو خون کی ترسیل (پمپ)کرنا ہے لیکن ہر کیفیت، خصلت، وصف، سوچ اور حال کا دارومدار بھی اسی ایک پہ ہے۔ جبھی تو وہ عالی شان رب اس لوتھڑے کو قلبِ مومن کہہ کے اپنا تخت مراد لیتا ہے۔ سب اسی میں ہے، سب راز اسی کے بھیتر ہیں، سب حال اسی میں پنہاں ہیں، اوپر بیان کردہ سبھی رنگ اسی انگ میں ہیں کہ اس کا ڈھنگ بدلے گا تو اس کا سنگ نصیب ہوگا۔

حضرت سلطان باہونے کیا خوب کہا:

دل دریا سمندروں ڈونگھے، تے کون دلاں دیاں جانے ہو

دل میں مثبت و منفی دونوں طرح کے جذبے اور خیالات رکھے گئے ہیں۔ اگر اس میں امید، حوصلہ، ہمت، مقصد، جذب جیسے مثبت پہلو ہیں تو اسی میں مایوسی، ناامیدی، لا یعنیت، غم و اندوہ جیسے منفی پہلو بھی ہیں۔ لیکن ہر ایک کا تعلق صرف دل کی تسلی اور مان لینے سے ہے۔ دانائے راز بتاتے ہیں کہ جذبے کی ابتدا صرف خود کے مان لینے ہی سے شروع ہو سکتی ہے۔

کہانی کار (اللہ رب العزت) نے سب کی (زندگی کی) بہترین کہانی لکھی ہے۔ لیکن اس دل کو کھلا چھوڑا ہے کہ اس کو راہ راست پہ لانا ہی اصل کامیابی ہے۔ تو پھر لازم ہے کہ اس میں سے مثبت پہلووَں کو تلاش کرکے اس (رب) کی راہ کھوجیں کہ جس پہ چل کے ہی ہم ہمیشہ کے لئے ابدی کامیابی کا راز پا سکتے ہیں۔ دل (قلب) کو اس کا تخت بنانے کی دیر ہے، یہ دنیاو مافیا سب اس کے سامنے ہیچ نظر آئے گی۔ پھر کھانے سے زیادہ کھلانے، سمیٹنے سے زیادہ بانٹنے، پا لینے سے زیادہ دان کر دینے میں لطف آئے گا کہ یہی داستاں کا محرک، مقصد، منشا اور بنیاد ہے۔

Check Also

Roos Mein Naya Saal Kaise Manate Hain

By Mojahid Mirza