Haji Tofeeq Aur Meri Kitaben
حاجی توفیق اور میری کتابیں
حاجی شفیع اسٹیل والا کراچی کی ممتاز سماجی شخصیت تھے۔ غالباً فاران کلب کے سرپرستوں میں سے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ ان کے بیٹے حاجی توفیق سے میری دوستی ہوگئی۔ توفیق بھائی کو کرکٹ کی کتابیں اور رسالے جمع کرنے کا شوق تھا۔ اب بھی ہوگا۔ جب میں پہلی بار ان سے ملا، یہ 1993 کی بات ہے، تو ان کا کلیکشن دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ وزڈن المانیک، دنیا جہاں میں چھپے کرکٹ کے سالانہ مجلے، کرکٹرز کی آپ بیتیاں، اسکور بکس، اعداد و شمار کی نایاب کتابیں اور دیس دیس کے رسالے۔
توفیق بھائی سخی آدمی تھے۔ انھوں نے اپنے کتب خانے کے دروازے آخر تک میرے لیے کھلے رکھے۔ میں نے ان کتابوں سے بہت استفادہ کیا۔ انھوں نے بہت سی کتابیں اور رسالے مجھے تحفتہ بھی دیے۔
میں 2003 کے کرکٹ ورلڈکپ کے دنوں میں جنگ کا اسپورٹس میگزین انچارج تھا۔ تب میں نے تین صفحات کا ایک مضمون چھاپا جس کا عنوان تھا، کرکٹ کے انوکھے دیوانے۔ اس میں ان لوگوں کا تعارف تھا جو کرکٹ سے متعلق اشیا جمع کرتے تھے۔ ڈاک ٹکٹ، ویڈیوز، آفیشل اسکورکارڈز، تصویریں اور کتابیں۔ ان میں توفیق بھائی کا بھی ذکر تھا۔
توفیق بھائی کی ایک عجیب عادت تھی کہ پرانی کتابوں کی کسی دکان یا ٹھیلے پر کوئی کمیاب کتاب یا رسالہ نظر آتا تو اس کی تمام کاپیاں خرید لیتے۔ ایک مقصد یہ ہوتا کہ مجھ جیسے دوستوں کو تحفے میں دیں گے۔ دوسرا یہ کہ کسی بے قدرے کے ہاتھ نہ لگیں۔
میں کتابیں تو ہمیشہ سے جمع کررہا ہوں لیکن کرکٹ کی کتابیں توفیق بھائی سے دوستی کے بعد جمع کرنا شروع کیں۔ ایک بار کسی وجہ سے دل خراب ہوا تو پورا کلیکشن اٹھاکر توفیق بھائی کے حوالے کردیا۔ کئی سال بعد دوبارہ صفر سے آغاز کیا۔ آج شمالی امریکا میں کرکٹ کی کتابوں کا مجھ سے بڑا ذخیرہ شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ میں دعوے کرنے سے گھبراتا ہوں۔ دنیا میں بڑے بڑے کمال کے لوگ موجود ہیں۔ کینیڈا میں عابد علی قاضی جیسے کرکٹ کے ماہر رہتے ہیں۔ کرکٹ کے دیوانوں کی سرزمین ویسٹ انڈیز بھی دور نہیں۔
لیکن چونکہ میں کرکٹ کی دنیا سے خوب واقف ہوں اور ہر چھپنے والی کتاب اور رسالہ میری نظر میں ہے، تو عاجزانہ طور پر کہہ سکتا ہوں۔ مثلاََ میرے کتب خانے میں 1947 یعنی قیام پاکستان سے آج تک کی تمام وزڈن المانیکس ہیں۔ ایسوسی ایشن آف کرکٹ اسٹیٹسٹیشنز کے تمام اینوول اور سال میں چار بار چھپنے والے مجلے بھی ہیں۔ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ پر کہیں بھی کچھ چھپا ہے تو میرے پاس ہے۔ امریکا کی کرکٹ پر کبھی بھی کچھ چھپا ہے تو میرے خزانے میں ہے۔ فہرست بہت طویل ہے اور شاید کسی کو اس میں دلچسپی نہ ہو۔
دراصل آج کل اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہیں اور میں کتابیں سمیٹنے کی کوشش کررہا ہوں۔ گھر کی ایک پوری منزل کتابوں سے بھری بلکہ اٹی پڑی ہے۔ کئی شیلف خریدے لیکن وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوئے۔ اب ایک ہفتے سے ڈبے اور بوریاں بنارہا ہوں اور اسٹوریج میں سنگھوارہا ہوں۔ ایک وقت تھا، میں سوچتا تھا کہ اپنی زندگی میں یہ سب کتابیں پڑھ پاؤں گا یا نہیں۔ اب سوچتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ان سب کتابوں کا کیٹلاگ ہی بناسکوں گا یا نہیں۔
توفیق بھائی اس لیے یاد آئے کہ سمیٹا سمیٹی میں کئی سو کتابوں کی دو یا زیادہ کاپیاں ملیں۔ کوئی اچھی کتاب چھپتی تھی تو میں ایک سے زیادہ کاپیاں خرید لیتا تھا کہ دوستوں کو تحفے میں دوں گا۔ کراچی میں تھا تو بے شمار کتابیں بانٹیں۔ لائبریری امریکا منگوالی تو یہ سیکڑوں اضافی کتابیں بھی آگئیں۔
کئی ایسی کتابیں بھی ہاتھ آئیں جو میں پاکستان سے منگوانے کے لیے دوستوں کی خوشامدیں کررہا تھا۔ یاد ہی نہیں تھا کہ کبھی انھیں خرید چکا تھا۔ ایسی ہر کتاب کو دیکھ کر مجھے فلم گجنی میں عامر خان کا کردار یاد آجاتا ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ میرے پاس چھ ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں جن میں پانچ سو سے زیادہ دستخط والی ہیں۔ اگر میں کیٹلاگ بناسکا تو دوستوں سے شئیر کروں گا۔ دوستوں سے زیادہ میں خود یہ جاننے کا خواہش مند ہوں کہ میرے خزانے میں کیا کیا ہے۔ کبھی کبھی بھلکڑ ہونا بھی اچھا ہوتا ہے۔ پرانی خوشیاں بار بار نئی خوشیاں بن جاتی ہیں۔