Sunday, 05 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Ikhlaqiat Ka Janaza

Ikhlaqiat Ka Janaza

اخلاقیات کا جنازہ

پچھلے کچھ سالوں میں پوڈکاسٹ انٹرویوز، فیس بک ریلز، یوٹیوب ریلز کا ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے، جو سماجی میڈیا پر بہت مقبول ہو رہا ہے۔ میں اس پلٹ فارم کے بالکل مخالف نہیں، سوائے کچھ لوگوں کے جو اچھا کام کر رہے اور اس کا استعمال بہتر مقاصد کیلئے کر رہے۔ لیکن افسوس کا مقام ان لوگوں کیلئے ہے جنھوں نے اپنی گھریلو ار ذاتے زندگی بازار میں لا کر بیچنا شروع کی ہوئی ہے اور کچھ لوگ ان پر بیٹھ کر واہیات لوگوں کیساتھ گپ شپ کے انداز میں انٹرویوز کر رہے ہوتے اور اپنے اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے راز افشاں کرکے پتہ نہیں کیا سنسنی پھیلا کر ثابت کرنا چاہتے۔ ان انٹرویوز کا معیار اکثر اخلاقیات کے تقاضوں سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ ان پوڈکاسٹس میں اکثر میزبان اور مہمان غیر اخلاقی زبان، غیر شائستہ موضوعات اور مذہبی معاملات پر بغیر کسی علم کے گفتگو کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔

ان پر آنے والے لوگوں کا الحمداللہ کہہ کر اس بات کا اظہار کے اللہ نے بڑی عزت دی ہے، مضحکہ خیز ہے، حالانکہ یہ لوگ صریحاً فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ویڈیوز میں نہ صرف نازیبا گفتگو بلکہ حرکات کو پیش کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں کو بھی آلودہ کیا جا رہا ہے۔ یہی حال سوشل میڈیا ایپس کا ہے، جہاں صارفین شہرت حاصل کرنے کے لیے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی منفی مثال قائم کر رہے ہیں اور ان کے اس رویے کی حمایت یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ ان کے روزگار کا ذریعہ ہے۔

اور انکو باور کروایا جائے تو کہتے ہیں، آپ لوگ نہ دیکھیں بلکہ کسی سے اس بارے میں گفتگو بھی کی جائے تو وہ بھی یہی کہتا ہوا سننے کو ملے گا کہ آپ نہ دیکھیں، بھائی یہاں ہمارے دیکھنے کی بات نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلتے ہوئے زہر کی ہو رہی ہے۔ جیسا کہ نشہ آور اشیاء کی ہوتی ہے، اُس پر تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ دکانوں پر پڑی ہونی چاہیَے مگر آپ نہ خریدو، لوگوں کا کاروبار ہے۔

یا کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ افراد اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں، لیکن یہ دلیل ناقابل قبول ہے۔ کوئی بھی عمل، چاہے وہ روزگار کا ذریعہ ہی کیوں نہ ہو، اگر معاشرے کی اقدار کو نقصان پہنچا رہا ہو، تو اسے روکا جانا چاہیے۔ یہ دلیل دینا کہ لوگ پیسہ کما رہے ہیں، ان کے غیر اخلاقی اعمال کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت نے ماضی میں لاؤڈ اسپیکرکے استعمال، بسنت کے تہوار اور پتنگ بازی جیسے معاملات پر سخت پابندیاں عائد کیں، حالانکہ ان سے لاکھوں لوگ اپنی روزی کماتے تھے۔ اگر ان معاملات پر فوری ایکشن لیا جا سکتا ہے تو سوشل میڈیا پر پھیلتی بے حیائی اور جہالت کے خلاف کیوں نہیں؟ کیا یہ کم خطرناک ہیں؟ کیا یہ ہماری سوسائٹی کو کم نقصان پہنچا رہے ہیں؟

مذہبی معاملات پر بات کرتے وقت جو سنجیدگی اور علم ہونا چاہیے، وہ ان سوشل میڈیا صارفین میں سرے سے موجود نہیں۔ مذہب کے نام پر جو گفتگو کی جاتی ہے، وہ اکثر علم سے خالی اور انتشار پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔ ان افراد میں سے بہت سے وہ ہیں جو خود کو گدی نشین یا مذہبی رہنما ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کا کردار اور عمل ان کے دعووں کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ لوگ مذہب کے نام پر عوام کا استحصال کرتے ہیں اور اپنی جہالت کو علم کا لبادہ پہنا کر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔

حکومت کو اس صورتحال پر فوری ایکشن لینا چاہیے، مگر انکو اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور ناکو چنے چبوانے سے ہی فرصت نہیں بلکہ اُلٹا وہ اس میں برابر کی شریک کہ عوام کا شغل میلہ لگا ہوا ہے اور اصل معاملات سے غافل ہی رہے تو اچھا، معاشرتی فلاح و بہبود کی تنظیمیں عالمی پراپیگنڈہ کا حصہ تو بڑی جلدی بنتی مگر ایسی کسی اصل معاشرتی گند کی صفائی کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کرتیں اور نام نہاد اسلامی تنظیموں کا کردار صرف چندہ اکٹھا کرنے اور اپنے گدی نشین آقاؤں کے بڑھے ہوئے پیٹ بھرنے کے سوا کوئی خاص نہیں۔

ذی شعور اور ذمہ دار لوگوں کو اس حوالے سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ والدین کو اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر پہلے سے زیادہ اور انکی تربیت پر اب خاص توجہ دینی چاہیے، والدین کا اپنے بچوں کو وقت دینا اور انکی ذہنی تعمیر میں کردار بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ تاکہ وہ ان منفی رجحانات کا شکار نہ ہوں۔ اساتذہ کو یہ سب تعلیمی اداروں میں اخلاقی سبق کے طور پر سکھانا ہوگا اور مذہبی رہنماؤں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے، ممبروں پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ گفتگو سے زیادہ معاشرے کی اصلاح اور نئی نسل کے کردار کا محاصرہ بہت ضروری اور لوگوں کو ان مسائل کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک اجتماعی کوشش کے ذریعے اس برائی کا مقابلہ کرنا ہوگا، ورنہ ہمارا معاشرہ اخلاقی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔

سوشل میڈیا ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے اور اسے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت، ادارے اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر ہم اس صورتحال کو نظر انداز کرتے رہے تو مستقبل میں اس کے نتائج مزید تباہ کن ہوں گے اور اس کا عملی مظاہرہ ہم ہمسایہ ممالک ہندوستان اور مغربی ممالک کے معاشروں میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں اقتصادی ترقی تو آسمان کو چھو رہی مگر معاشرے کا بیڑہ غرق ہو چکا، والدین کا اپنی اولادوں سے اور انسانوں کا دین سے صرف نام کا ہی تعلق رہ گیا اور انفرادی اور من مرضی کی زندگی نے ہر بات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہوئی۔

Check Also

Aah Gharnata (2)

By Javed Chaudhry