Sunday, 05 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Tareek Rahon Ke Musafir

Tareek Rahon Ke Musafir

تاریک راہوں کے مسافر

بہت دنوں کے بعد آپ کوئی کتاب اٹھائیں تو کتاب آپ کے ساتھ سوتیلی اولاد کا سا سلوک کرتی ہے، الفاظ آپ کی بات مان کر ہی نہیں دیتے۔ کتاب کے مضامین کسی سوتن زدہ بیوی کی طرح آپ سے روٹھے ہی رہتے ہیں۔ آپ اندھیری رات میں چراغ ہاتھ میں لیے راستہ ڈھونڈنے کے مصداق کتاب میں غرق رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ آپ کے دماغ پر جمی اوس ہٹنا شروع ہوتی ہے اور آپ کا راستہ صاف ہوتا جاتا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے وقت میرے ساتھ بھی قریب قریب یہی معاملات رہے۔

اب کچھ بات اس کتاب پر ہو جائے۔ یہ ہنری بالزاک کا ناول "یوجین ڈی گرانڈ" ہے جسے رؤف کلاسرا نے ترجمہ کیا ہے۔ بالزاک ایک فرنچ رائٹر ہیں اور اپنے اس ناول میں انہوں نے ابتدائی انیسویں صدی کے فرانس کا ایک گاؤں قاریئن کے سامنے پیش کیا ہے۔ جس میں جہاں ایک طرف ایک کنجوس باپ، زمین دار اور سرمایہ دار اپنے دانت کھولے سامنے کھڑا ہے تو دوسری طرف اس کی ڈری سہمی بیوی اور بیٹی ہے جو کروڑپتی ہوتے ہوئے بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ گاؤں کے دوسرے "ابن الوقت" قسم کے لوگ دکھائے گئے ہیں جو اس بوڑھے کی دولت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور بوڑھا اپنی مکاری اور چالاکی سے ان کا ہر حربہ ناکام بنائے ہوئے ہے۔

ایسے میں اس کی بیٹی کی زندگی میں اس کا مفکول الحال بھتیجا آ وارد ہوتا ہے جو اسے محبت کے معنوں سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کا باپ اس کی شادی کے خلاف ہے کیونکہ ایسے اس کی ساری دولت خاندان سے باہر چلی جائے گی۔ اپنے باپ کے غصے اور روک ٹوک کے برعکس "یوجین" کیسے اپنے کزن کی محبت کا جام اپنے حلق سے اتارتی ہے، پورے ناول میں صرف یہی حصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

اس کے بعد مصنف نے اس دور کے فرانس کی اقتصادی پالیسیاں بھی لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں مگر وہ اتنی گنجلک ہو جاتی ہیں کہ عام قاری انھہیں سمجھ نہیں پاتا۔ کہیں کہیں ترجمہ پھر کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے جس سے کہانی الجھاؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہر بیرونی ناول کی طرح ناموں کا مسئلہ یہاں بھی آڑے آتا ہے کہ ایک ایک شخص مختلف جگہوں پر چار چار ناموان سے مخاطب کیا جاتا ہے جو قاری کا ذہن چکرا دیتے ہیں۔

Check Also

Aik Aur Uran Ki Koshish

By Khalid Mehmood Rasool