Sunday, 05 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khalid Isran
  4. Waqt

Waqt

وقت

وقت جسے زمان بھی کہتے ہیں "کیا ہے؟"۔ فلسفہ، سائنس اور مذہب میں سب سے زیادہ بحث اس پر ہوئی ہے۔ ہر مکتبہ فکرنے، ہر شعبہ زندگی نے وقت کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کی ہے لیکن وقت ہے کہ ان سے آزاد اپنی مرضی سے رواں دواں ہے۔ انسان کی زیادہ سوچ بچار اسی بات پر رہی ہے کہ کیاوقت کوئی حقیقی چیز ہے یا صرف انسان کے ذہن کی پیداوار۔ کیا وقت صرف انسان کے ذہن کا حسین تخیل ہے یا کوئی ٹھوس حقیقی چیز؟

سائنس میں وقت کا مکان (جس کے اندر ساری کائنات کا مادہ ہے) کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ وقت کا وجود مادہ کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے اور مادہ یا مکان ختم ہونے کے ساتھ وقت بھی ختم ہوجائے گا۔ نیوٹن نے کہا تھا کہ وقت ایک لہر کی طرح ہے جو مکان کے چوکٹھے سے گزر رہی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ وقت ان پلٹ ہے، گزرے لمحات کبھی واپس نہیں آتے اگرچہ آئن سٹائن کے تھیوری سے کچھ لوگوں نے غلط مفروضے گھڑلئے تھے کہ وقت رک بھی جاتا ہے اور پلٹا بھی جاسکتا ہے لیکن آج تک وقت کو کوئی بھی پلٹ نہیں سکا۔

وقت ایسا فاتح ہے جو ناقابل تسخیر ہے جبکہ دوسری طرف مکان کے اندر ہر حرکت کو پلٹاجاسکتا ہے۔ جس چیز کو آپ مقام الف سے ب تک لے کر جاتے ہیں اسے دوبارہ مقام الف تک لایا جا سکتا ہے۔ وقت دراصل وہ پیمانہ ہے جس سے تغیر وتبدل کو ناپا جاسکتا ہے جیسے وقت گزرنے کے ساتھ لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے، انسان بوڑھا ہوجاتا ہے۔

ہاں! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس چیز میں تغیر و تبدل رک جائے، اس کیلئے وقت بھی رک جاتا ہے اور جن سیاروں میں کشش ثقل زیادہ ہوتی ہے وہاں دن اور رات کا دورانیہ زمینی چوبیس گھنٹوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ کچھ بڑے سیاروں میں دن اور رات کا دورانیہ پچاس گھنٹوں سے بھی زیادہ ہے۔

وقت ایک احساس کا نام بھی ہے۔ جن جانداروں کی عمر کم ہوتی ہے ان کیلئے وقت بہت آہستہ گزرتا ہے۔ ایک مچھر جس کی زندگی سات دن ہوتی ہے، اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سینکڑوں سال سے جی رہا ہو۔ جب سائنس کی ترقی کم تھی اور دنیا تیز رفتار نہیں تھی، اس وقت انسانوں کو ایسا لگتا تھا جیسے وقت بہت آہستہ گزر رہا ہو۔ یہ ہرایک کا مشاہدہ ہے کہ غم کی گھڑی بہت آہستہ گزرتی ہے اور خوشی کے لمحات بہت تیز رفتاری سے۔

وقت انسان کیلئے پیمائش کا بہت بڑا آلہ ہے۔ ہر پیمائش گزرے ہوئے وقت کے لمحات کو ظاہر کرتی ہے۔ وقت لامحدود ہے (لامحدود وہ چیز ہوتی ہے، جس کے نہ آغاز کا پتہ ہو اور نہ ہی انجام کا)۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ لامحدود چیزوں کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی گرفت میں لاسکتا ہے۔ اس لئے انسان نے لامحدود وقت کو محدود لمحوں میں تقسیم کردیا۔ سب سے پہلے بابلیوں نے وقت کو دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کیا وقت کی سیکنڈز، منٹوں، گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کی بنیاد سورج کی حرکت ہے لیکن خود سورج وقت کی اس تقسیم سے بے نیاز ایک قیدی اور غلام کی طرح ایک مقید دائرے میں لاکھوں سالوں سے حرکت کررہا ہر اور نہ جانے کب تک اس کی یہ بے معنی حرکت جاری رہے گی۔ جس طرح ایک غلام کیلئے وقت بے معنی ہے، اسی طرح سورج کیلئے بھی وقت کی یہ تقسیم بے معنی ہے، اسے انسان کے نئے سال اور جشن سے کوئی غرض نہیں۔

لیکن انسان کیلئے وقت کی یہ تقسیم بہت معنی رکھتی ہے، اس سے انسان اپنے جذبوں کو جلابخشتا ہے، اپنی زندگی کے مقاصد نئے سرے سے طے کرتا ہے۔ یہ نیاسال اسے پرانے غموں اور ناکامیوں کوبھول جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک نئی امید دیتا ہے۔ آنکھوں کو نئے خواب دیتا ہے۔

Check Also

Baba

By Mubashir Ali Zaidi