Buzurgism
بزرگ ازم
بزرگوں کو لگتا ہے ان سے عمر میں چھوٹا ہر شخص چوتیا ہے، زندگی کے سارے اسرار رموز ان پر منکشف ہو چکے ہیں، وہ تجربات کی بھٹی میں سے کندن بن کر نکل چکے ہیں، ساری کی ساری سمجھداری صرف ان کی کھوپڑی میں مرکوز ہوگئی ہے، نوجوان صرف آکسیجن کا کوٹہ پورا کرنے واسطے ہی دنیا میں آئے ہیں۔
یہ بزرگیت کا شکار بڈھے آپ کو بتائیں گے کہ۔۔
"جتنی تمھاری عمر نہیں اتنا ہمارا تجربہ ہے۔
تم ابھی بچے ہو، تم نے ابھی دنیا دیکھی ہی کہاں ہے۔ اس لیے یہ نہ کیا کرو، وہ نہ کیا کرو"۔
انکل بے شک آپ کی عمر زیادہ ہے، آپ نے غلطی سے میری عمر سے تین چار سال زیادہ تجربہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ آپ ہی موجودہ دور کے ابن بطوطہ اور مارکو پولو ہیں جس نے دنیا بھی دیکھ رکھی ہے۔ آپ نے زندگی میں ماریں بھی بہت کھائی ہوں گی۔ مگر ان سارے خصائص کا یہ مطلب ہر گز نہیں جس پر آپ اپنے تجربات کے پلندے جھاڑ رہے ہیں وہ بلکل ڈھکن ہے یا اس کے اوپر والا خانہ صرف بھوسے سے بھرا ہے۔ سیدھی بات یہ ہے انکل کہ آپ نے جو زندگی میں اکھاڑنا تھا اکھاڑ لیا۔ اب اپنے تجربات کی پوٹلی باندھ کر تیتر بٹیر لڑایا کریں اور تھوڑے بہت تجربات بزرگیت کا رعب جھاڑے بغیر نوجوانوں کو بانٹا کریں۔
ذیادہ عمر گزارنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا عمر میں چھوٹے کو آپ سائیں سمجھ کر اپنے مبینہ "تجربات" برخوردار پر انڈیلنا شروع کر دیں۔ حد سے زیادہ تجربہ کار ہونا خوبی کے ساتھ ساتھ ایک عیب بھی ہے۔ حد سے بڑا ہوا تجربہ دماغ نفسیات میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے ایک ایسی رکاوٹ جو نئے قدم اور نئے خیال کے راستے میں حائل ہوتی ہے۔
تجربات بندے کو بزدل بنا دیتے ہیں۔ بڑے قدم اور بڑی سوچ تجربے سے زیادہ جذبابیت سے جنم لیتی ہے۔ جو انرجی جوانی میں ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ جذباتیت ہی ذہنی طور پر خصی ہونے سے بچاتی ہے۔
میں ایسے بوڑھوں سے بہت الرجک ہوں جو پرانے دنوں کی آئیں بھرتے ہوئے تجربات کی رمائن شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے باور کروائیں کہ تم ابھی بچے ہو، تمھیں ابھی سمجھ نہیں ہے، زندگی میں بابا جی نے جھانٹ بھی اکھاڑی نہیں ہوگی مگر وہ خود کو نوم چومسکی اور چانکیہ سے کم نہیں سمجھے گا۔ اس پیڑھی سے پہلے والے بابے پھر بھی کچھ جینوئن تھے مگر ہماری پیڑھی کے بزرگوں میں سے ہر کوئی اشفاق احمد بابا بننا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے بابا جی نے جو چیز رگڑے کھا کر سمجھی وہ آج کا ٹیکنالوجی سے لیس نوجوان سمارٹ اپروچ سے بغیر رگڑے کھائے سیکھ گیا ہو۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بزرگوں کا احترام نہ کریں، بلکل ان کا احترام کریں مگر احترام کا ہیضہ ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ ہمارا مشرقی احترام بھی خاصا بناوٹی قسم کا احترام ہے میں اس احترام کا قائل نہیں۔ احترام کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ عمر سے بڑے شخص کی ہر الغم بلغم کو جی جی کرکے قبول کرتے جائیں اور احترام کے نام پر اختلاف کرنے کی بھی جرات نہ کریں کہ باباجی ناراض ہو جائیں گئے۔
برصغیر میں بزرگوں کے احترام کی بنیادی وجہ اخلاقی سے زیادہ معاشی ہوتی ہے۔ یہاں پر زیادہ تر جوائنٹ فیملی سسٹم ہے۔ کمانے والا ایک اور کھانے والے دس۔ جو کمانے والا ہوتا ہے وہ ہٹے کٹے مگر ویلے بھائیوں یا بیٹوں کا خرچہ بھی چلا رہا ہوتا ہے۔ جس کے باعث بزرگیت کی مسند پر بیٹھنے والے کماؤ پوت کی ہر بات پر جی جی کی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اکلوتے کمانے والے گھر کے سربراہ کی نفسیات یہ بن جاتی ہے ساری سمجھداری اسی کی کھوپڑی میں ہے اس کے ویلے بیٹے جنھیں وہ مفت کی روٹیوں سے ہڈ حرام بنا چکا ہوتا ہے اسے وہ سب کے سب چوتیا ہی نظر آتے ہیں۔
مشرقی احترام اسی بنیادی پہلو کے گرد گھومتا ہے۔
بزرگوں کا احترام ضرور کریں مگر احترام کے نام بزرگوں کی تجربات کی بھٹی میں خود کو نہ بھوننے دیں۔
اپنی راہ خود بنائیں نصیحتوں کی ملاوٹ سے اسے کھوٹا نہ کریں۔۔