Thursday, 13 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Colleges System Se Mayoosi

Colleges System Se Mayoosi

کالجز سسٹم سے مایوسی

حقانی یار، تم اپنے کالجز سسٹم سے اتنے مایوس کیوں ہو؟

آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد یہی اندازہ ہوا کہ گلگت بلتستان کے کالجز کے نظام میں نہ اساتذہ علمی اور تحقیقی ترقی کرسکتے ہیں، نہ ان کی محکمانہ پروموشن ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی قابلیت کے مطابق عزت افزائی کی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

میں نے عرض کیا، مجھے ایس آر اوز، پروموشن پالیسیوں، یا دیگر قواعد و ضوابط کا گہرا علم نہیں، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے لیکچرار حضرات گریڈ 17 میں بھرتی ہوتے ہیں اور بیس سال بعد بھی اسی گریڈ میں موجود رہتے ہیں۔ اس دوران ان کے ساتھ بھرتی ہونے والے دیگر محکموں کے افسران، جیسے تحصیلدار، سیکشن آفیسرز وغیرہ، گریڈ 20 تک پہنچ کر سیکریٹری جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوچکے ہوتے ہیں۔

میں ایسے دس لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، جو پولیس انسپکٹر تھے اور آج ایس پی اور ڈی آئی جی کے رینک پر ہیں۔ تب میں لیکچرار تھا اور آج بھی لیکچرار ہی ہوں۔ میرے سامنے جو نائب تحصیلدار یا تحصیلدار کے عہدے پر تھے اور آج ڈپٹی سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح جو سیکشن آفیسر تھے اور آج مختلف محکموں کے سیکریٹریز بن چکے ہیں۔

اس کے برعکس، گلگت بلتستان کے لیکچرار اور پروفیسر، جو معاشرے کو علمی روشنی فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، نہ تو اپنے گریڈ میں ترقی کر پاتے ہیں اور نہ ہی انہیں تحقیقی ترقی کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ صورتحال صرف مایوس کن نہیں بلکہ ایک بڑے المیے کی علامت ہے۔

اب آپ ہی بتلائیں کہ یہ صورتحال کالجز کے اساتذہ کو مایوس نہ کرے تو اور کیا کرے؟

کالجز کے سسٹم میں پروموشن کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ دیگر محکموں میں افسران کے لیے ترقی کا راستہ واضح ہے، لیکن کالجز اساتذہ کے لیے کوئی مؤثر اور شفاف پروموشن پالیسی موجود نہیں۔

علمی اور تحقیقی مواقع کا فقدان ہے۔ کالجز میں تحقیق کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور اساتذہ کو تعلیمی ترقی کے لیے ضروری سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ تعلیمی شعبے کی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بالخصوص کالجز کے تعلیمی شعبے کو دیگر محکموں کے مقابلے میں ہمیشہ کم ترجیح دی گئی ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ کی محنت اور قابلیت کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہیں۔

بیوروکریسی کی بالادستی کسی سے پوشیدہ نہیں، بیوروکریٹک شعبے کی ترقیاتی رفتار تیز اور وسائل و اختیارات کی فراوانی سے بھرپور ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں تعلیمی شعبے کو نہایت محدود وسائل پر چھوڑ دیا گیا ہے اور پھر کالجز کے شعبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اب سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے کالجز کے اساتذہ کے مسائل اور ان کی علمی و محکمانہ ترقی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس کے لئے کچھ تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔

واضح اور شفاف پروموشن پالیسی کے بغیر پرموشن ممکن نہیں۔ کالجز کے اساتذہ کے لیے ترقی کا ایک واضح راستہ متعین کیا جائے، جس میں تعلیمی قابلیت، سینیارٹی اور تحقیقی کام کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ اسی طرح تحقیق کے مواقع فراہم کیے جانا از حد ضروری ہے۔ کالجز میں تحقیقی کلچر کو فروغ دیا جائے اور اساتذہ کو ترقی کے لیے عالمی معیار کی سہولیات مہیا کی جائیں۔ بے ان سہولیات کے بعد ان سے اسی لیول کا رزلٹ بھی مانگا جائے۔

حکومت گلگت بلتستان کو چاہیے کہ وہ دیگر محکموں کی طرح جی بی کالجز اور ان کے اساتذۂ اور تعلیمی شعبے کو بھی اولین ترجیح دے، تاکہ معاشرے کے معمار مایوسی کا شکار نہ ہوں۔

اساتذہ کے حقوق کا تحفظ کو حرزجان بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کالجز کے اساتذہ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک منظم تنظیم سازی کرنی چاہیے، تاکہ ان کی آواز متعلقہ حکام تک پہنچ سکے۔ پروفیسر ایسوسی ایشن کی پندرہ سالہ تاریخ میرے سامنے ہے۔ سادہ الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی تنظیم سازی اور بے مروتی سے کسی ایک حق کا بھی تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔

یہ حقیقت ہے کہ جی بی کالجز کے اساتذہ کو نظرانداز کرنا، نہ صرف اساتذہ بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر آج اساتذہ کے مسائل حل نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسلیں ایک غیر معیاری نظام تعلیم کا سامنا کریں گی اور ان کو تعلیم دینے والے ڈپریشن کا شکسر ہونگے۔ لہٰذا، حکومت اور متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ کالجز کے اساتذہ کی ترقی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں، تاکہ اس مایوس کن نظام کو امید اور روشنی میں بدلا جا سکے۔

بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے لیکن شاید اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جو کہا گیا وہ بھی کافی ہے اگر کوئی عقل رکھتا ہے تو اس کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔

Check Also

Black Hole Ka Andar Jaane Se Kya Hota Hai

By Tehsin Ullah Khan