Balochistan, Khoobsurti, Masail Aur Umeedon Ki Sarzameen
بلوچستان: خوبصورتی، مسائل اور امیدوں کی سرزمین

بلوچستان، پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے کم گنجان صوبہ ہے۔ یہ سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال، ثقافتی تنوع سے لبریز اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ مگر افسوس کہ وسائل کی فراوانی کے باوجود، بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات کو ترستے نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کی سرزمین پہاڑوں، صحراؤں، سمندری ساحلوں اور زرخیز وادیوں کا حسین امتزاج ہے۔ گوادر کی بندرگاہ، جو مستقبل میں پاکستان کی معیشت کا دل بننے جا رہی ہے، اسی سرزمین کا حصہ ہے۔ بلوچستان نہ صرف سونا، چاندی، تیل، گیس اور دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کے لوگ بھی غیر معمولی مہمان نوازی، بہادری اور غیرت کے پیکر ہیں۔
بدقسمتی سے، اس صوبے کو ترقی کی وہ رفتار نہیں مل سکی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔ قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان احساسِ محرومی کا شکار رہا ہے۔ تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے، روزگار اور سیکیورٹی کے حوالے سے بلوچستان کو جو توجہ درکار تھی، وہ مسلسل نظر انداز ہوتی رہی۔ یہاں کی سڑکیں، ہسپتال، تعلیمی ادارے، حتیٰ کہ پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات بھی بیشتر علاقوں میں ناپید ہیں۔
اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو بلوچستان کا تعلیمی معیار دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ شرح خواندگی کم ہے، سکولوں کی تعداد ناکافی ہے اور جو ادارے موجود ہیں وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کی صورتحال تو اور بھی تشویشناک ہے۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی، مناسب تربیت کا نہ ہونا اور دور دراز علاقوں میں تعلیمی مراکز کی عدم موجودگی بچوں کے مستقبل کو تاریک بنا رہی ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی بلوچستان کی حالت ابتر ہے۔ صوبے کے بیشتر دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسپتال دور دراز ہیں، ڈاکٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے اور بنیادی ادویات کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک عام شہری کے لیے معیاری طبی سہولت حاصل کرنا کسی خواب سے کم نہیں۔
بلوچستان میں بے روزگاری بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ نوجوان، جو کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، بے روزگاری کے ہاتھوں مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وسائل کی بھرمار کے باوجود مقامی آبادی کو ان منصوبوں میں روزگار کے مواقع نہیں ملتے۔ جس کی وجہ سے مایوسی اور احساسِ محرومی مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
سلامتی کی صورتحال بھی بلوچستان میں ایک بڑا چیلنج رہی ہے۔ دہشت گردی، فرقہ واریت، بدامنی اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم نے یہاں کے عوام کی زندگی کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں حالات میں بہتری آئی ہے، لیکن ابھی بھی اعتماد کی فضا مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔
حکومت کی جانب سے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت گوادر کی ترقی پر توجہ دی جا رہی ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات مقامی عوام تک بھی پہنچیں۔ انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے، ان کی ضروریات اور مسائل کو ترجیح دی جائے۔
بلوچستان میں نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ اگر انہیں مناسب تعلیمی مواقع، تربیت، روزگار اور پلیٹ فارم فراہم کیا جائے تو وہ صوبے کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرنا، کھیلوں، فنون اور سائنسی تحقیق میں مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بلوچستان کی خواتین بھی باصلاحیت اور ہنرمند ہیں۔ اگر انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بھی ترقی کی دوڑ میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ خواتین کی سماجی و اقتصادی شرکت کو فروغ دیے بغیر بلوچستان کی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
بلوچستان کا مسئلہ صرف ترقیاتی منصوبوں یا وسائل کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اعتماد کی بحالی سے بھی ہے۔ جب تک مقامی لوگوں کو عزت، برابری اور شراکت داری کا احساس نہیں دلایا جائے گا، تب تک محرومی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے بارے میں قومی سطح پر سنجیدہ مکالمہ کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف منصوبہ بندی میں مقامی لوگوں کو شامل کریں بلکہ ان کی رائے کا احترام بھی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا، دانشوروں اور سماجی تنظیموں کو بھی بلوچستان کی مثبت تصویر پیش کرنی چاہیے تاکہ وہاں کے عوام کو تنہا ہونے کا احساس نہ ہو۔
آج بلوچستان امید اور مواقع کا دوسرا نام بن سکتا ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے یہاں کی ترقی کو اپنی قومی ترجیحات میں شامل کر لیں، اگر ہم ہر بلوچ کو یہ احساس دلا سکیں کہ وہ بھی پاکستان کا برابر کا شہری ہے، تو بلوچستان نہ صرف خود ترقی کرے گا بلکہ پورے پاکستان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
بلوچستان کی مٹی وفا کی خوشبو سے مہکتی ہے، یہاں کے لوگوں کے سینے محبت اور غیرت کے دیپ جلاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس محبت اور قربانی کا صلہ محرومیوں کے بجائے ترقی، خوشحالی اور خوشیوں کی صورت میں دیں۔

