Opposition Ke Melay Aur Hukumat Ke Heelay
اپوزیشن کے میلے اور حکومت کے حیلے
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کہیں نہیں جانے والی اس لئے ہر دو طرف کے کارکنان منہ لپیٹے پڑے رہیں۔ جب کہ دوسری اور مزے کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی بھی کوئی خواہش نہیں کہ حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ بھلا کون جلا ہوا کمبل عمران خان کی گردن سے اتار کر اپنے سر لینا پسند کرے گا۔ ہاں، کبھی کبھار کی چوں چراں بس لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے لیکن اپنے وزیر اعظم ہیں کہ سرسراتی ہوئی ہوا کی کانا پھوسیوں سے ایسے بدک بدک جاتے ہیں جیسے پتنگا اپنے سائے سے ڈرا سہما جاتا ہے۔ اب اس حقیقت کو بھی تو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اپوزیشن نے اپنا دامن بچانے کے لئے دو چار میلے تو لگانے ہی تھے۔ لیکن ادھر خان صاحب نے گھبرا کے بندوق ہی نکال لی۔ اور پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر ڈرانے دھمکانے لگ گئے لیکن جب مقابل کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو پرچےکٹوانے نکل کھڑے ہوئے۔
مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ خان صاحب کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ ان کی حکومت کے دو سال بعد، آخر اب ایسا بچا بھی کیا ہے کہ اپوزیشن جس کی شائق ہو اور حاصل کرنے کے درپے ہو۔ اور قارئین! آپ ہی بتائیں بھلا تماشا دیکھنے والے اپنا تماشا کیوں بنوانے لگے؟
شاید خان صاحب ابھی نئے ہیں اس لئے انہیں سیاسی معاملات ہینڈل کرنے کا تجربہ نہیں۔ لیکن پھر ان کی بائیس سال کی جدوجہد والی کہانی سامنے آ جاتی ہے کہ یار لوگ جسے الف لیلوی داستان بنا کر سنایا کرتے تھے۔ لیکن خان صاحب نئے یا پرانے، جیسے بھی ہوں آخر ان کی ٹیم تو وہی ساری کی ساری پرانی والی ہی ہے کہ گزشتہ کئی حکومتوں کے یہ لوگ حصہ رہ چکے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بھی خان صاحب کو دینے کو کوئی مفت کا مشورہ بھی نہیں ہے کہ لے دے کر صرف پرچے کٹوانے اور منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر ڈرانے دھمکانے کی نوبت آ گئی ہے۔
جانے کیوں خان صاحب نے ڈی چوک والے دھرنے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب وہ ایک منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے چلے تھے اور پھر کبھی ایمپائر کی انگلی پکڑ لیتے تو کبھی بل جلانے لگتے۔ پھر وہاں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان بھی کیا گیا اور مخالفین کی شلواریں بھی گیلی کی گئیں بلکہ پورے سوا سو دن اپنے پوتڑے بھی بھرے چوک میں سکھائے گئے لیکن مجال ہے جو اس وقت کی حکومت نے کوئی نوٹس لیا ہو۔ ٹھیک ہے، سابقہ حکومت چور تھی، کرپٹ تھی، لیکن بہرحال اسے جمہوری روایات کا پاس تھا ورنہ اگر وہ چند ایک چھوٹے موٹے مقدمے خان صاحب پر بنوا بھی دیتی تو بھی ان کا حق تھا کہ چھوٹی موٹی خلاف ورزیاں خان صاحب کی طرف سے دیکھنے کو ملی بھی تھیں۔ لیکن سابقہ حکومت کے حوصلے کو داد دینا ہو گی کہ جس نے خان صاحب کو فری ہینڈ دئیے رکھا اور انہیں برداشت کرتے ہوئے اپنے سروں پر ناچنے کی کھلی چھٹی دئیے رکھی۔
جب کہ اب کی بار کیا ہوا ہے، نہ تو کوئی بیچ چوراہے دھرنا دے کر ڈھیٹ بن گیا اور نہ ہی کسی نے ریاستی اداروں کے خلاف سول نافرمانی کی کال دی۔ لیکن پھر بھی خان صاحب سیخ پا ہو کر ہتھے سے ہی اکھڑ گئے اور طرح طرح کے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے حتیٰ کہ میاں صاحب کی تقریر بھی میڈیا پر چلنے سے روک دی گئی۔
خدا جانے یہ لوگ بے وقوف ہیں یا انہیں سمجھانے والا کوئی نہیں۔ کیوں ان لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اپوزیشن کے اس احتجاج کو اوچھے اور غیر جمہوری طریقوں سے دبا کر دراصل یہ اپنی ہی سیاسی پوزیشن کمزور کر رہے ہیں وگرنہ اپوزیشن کا تو کچھ نہیں جا رہا بلکہ اس سے تو اپوزیشن کو مزید کمک مل رہی ہے۔ مگر ایسا آمرانہ رویہ تو ایک فوجی حکمران کو لے ڈوبتا ہے چہ جائیکہ ایک جمہوری وزیر اعظم۔