Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Zindagi Ko Enjoy Karen

Zindagi Ko Enjoy Karen

زندگی کو انجواۓ کریں

یونیورسٹی کبھی بھی کیرئر بنانے کی نیت سے نا جائیں۔ انفیکٹ میں خود یونیورسٹی کیرئیر بنانے کی نیت سے نہیں گیا۔ کیونکہ کیرئر ڈگری کےساتھ بن ہی جاتا ہے مگر زندگی دوبارہ نہیں ملتی۔ یونیورسٹی جا کر یہ والے چار سال ایسے گزاریں جیسی زندگی گزارنے کی آپ خواہش رکھتے ہیں۔ زندگی ایک سانپ کی طرح ہے اگر آپ ناپسندیدہ چیزوں کا سراغ نہیں لگائیں تو یہ چیزیں چپکے سے آپ کی شخصیت کو نگل جائیں گی۔ آخر میں آپ کے پاس ڈیپریشن اور پریشانیوں کے سواکچھ نہیں بچے گا۔ اور پھر اپنے اسٹیٹس پہ ان محرومیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے میں باقی کی عمر لگا دیں گے۔

اپنی زندگی میں ان چیزوں کو چن چن کر ڈھونڈیں جن سے آپ اجتناب برتنا چاہتے ہیں جنہیں آپ کبھی نہیں چاہتے، جو آپ کی شخصیت کو مسخ کر رہی ہیں۔ اور پھر ان تمام چیزوں اور لوگوں کو یوں پس پشت ڈالیں جیسے انکا وجود ہی نا تھا۔ ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں کو اپنی زندگی سے نکالنے کے ساتھ ساتھ خود کو ایکسپلور کرنا سیکھیں۔ آپ کس چیز سے خوش ہوتے ہیں آپ کو کیا چیز چیلنج کرتی ہے؟ اور پھر ان چیزوں کو لانے کی کوشش کریں جو آپ کو پسند ہیں۔ جنہیں کر کے آپ کے من کو تشنگی ملتی ہے تشفی بخش سرگرمیاں کریں۔

اگر آپ کو کھیل کود پسند ہے تو ٹیم جوائن کریں، سوشلائزیشن پسند ہے تو ہزاروں دوست بنائیں۔ اکیلے بیٹھنا پسند ہے تو سوشل میڈیا کو جائن کر لیں۔ ریسرچ پسند ہے تو جرنلز کو پڑھیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام کرنے کی کوشش ضرور کریں جو آپ کو پسند ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ زندگی اپنے احساس محرومیوں کے بوجھ تلے جیتے ہیں۔ اگر آپ نے کل کو یہ کہنا ہے کہ کاش وہ کر لیتا تو آپ کو پھر احساس محرومی سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ زندگی ایسے جئیں کہ کل کو آپ کو ماضی سے کوئی شکوہ نا ہو۔

ہم میں سے زیادہ تر بچے یونیورسٹی کے یہ قیمتی سال بس اپنے کیریئر کی دوڑ میں ناپسندیدہ ترین لوگوں کو خوش کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں حالانکہ وہ تو بن ہی جانا ہوتا ہے کیونکہ ڈگری آپ کو ہر صورت ملنی ہوتی ہے اور یہ ڈگری آپ کے مستقبل کی سمت کا تعین ہی کرے گی، لیکن کیا واقعی آپ یہ والا مستقبل چاہتے ہیں؟ اس بات کے لئے ان چار سالوں میں اپنی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں۔

پروفیسر پیٹرسن کا بہت پیارا جملہ ہے کہ خود کےساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا آپ اپنے کسی جان سے عزیز شخص کےساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو خوش کرتے کرتے خود کو خوش رکھنا بھول جاتے ہیں جن کو ہماری پرواہ تک نہیں ہوتی اور جب ہوش آتی ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس دیر سے بچنا چاہیے۔ اپنے ضروری کام بھی نمٹانے چاہیں مگر کاموں کو زندگی نہیں بنانا چاہیے۔ زندگی میں کام رکھیں، خوشگوار رہیں گے کام میں زندگی رکھیں گے تو مزہ نہیں رہے گا۔

ہاں کچھ نیا کر رہے ہیں تو اس کو اپنا سو فیصد دیں لیکن اگر آپ نے محض پرانی چیزیں رٹنے کو زندگی اور کیرئر کی دوڑ سمجھ لیا ہے اور پھر بعد میں ساری زندگی ایک آفس میں گزارنے کا سوچ رکھا ہے تو پھر آپ کل کو جب اکیلے بیٹھیں گے تو بہت پچھتائیں گے کہ کیوں تب غلط چیزوں میں وقت ضائع کیا تھا؟ بہت سمپل کلیہ ہے کہ ہر گولڈ میڈلسٹ نوبل پرائز ونر نہیں ہوتا اور نوبل پرائز ونر بننا آسان کام نہیں۔

اس کے لئے آپ کو کتابی دنیا سے زیادہ حقیقی دنیا کا علم ہونا چاہیے، ان مسائل کا علم ہونا چاہیے جو کہ ابھی حل نہیں ہوئے جن کی کھوج لگانا ضروری ہے۔ اس کے لئے زندگی جینا اہم ہے۔ کیرئر بنانے کی نیت ذہن میں رکھیں مگر اپنے حال کو انجوائے کریں بورنگ ذہن کبھی بھی تخلیقی خیال نہیں سوچ سکتا اور تخلیقی خیال تب ہی آتے ہیں جب آپ کا دنیا کے ساتھ ایکسپوژز بہت زیادہ ہوتا ہے۔

سو یہ چار سال ہر فن مولا بن کر جینے کی کوشش کریں۔ لیکن کوشش کریں کہ آپ کسی ایک کام میں ماہر بھی ضرور ہوں۔ کس کام میں؟ اس پر پھر بات ہوگی۔ تب تک آپ سوچیں کہ کیا آپ کسی ایک ایسی چیز میں ماہر ہیں جس میں آپ حد سے زیادہ ماہر ہوں؟

Check Also

Khoobsurat Qeemti Libas Aik Junoon

By Saira Kanwal