Wo Aurat Jise Dard Hi Mehsoos Nahi Hota
وہ عورت جِسے درد ہی محسوس نہیں ہوتا
جو کیمرون نامی مریضہ کا آپریشن کرنے کے بعد ڈاکٹر اُسے پین کِلر لگانے ہی والے تھے کہ جو مسکراتے ہوئے بولی کہ اُس کو یہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ کسی قسم کے درد کو محسوس ہی نہیں کر رہی۔ یہ بات ڈاکٹروں کے لئے کافی حیران کن تھی کہ جو کو درد کیوں نہیں ہو رہی؟ انہوں نے جو کے ٹیسٹ کیے اور پتا چلا کہ جو میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
مزید استفسار پہ جو نے یہ حیران کُن انکشاف کیا کہ زچگی جو کہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے، اُس کے لئے کافی پُر مسرت تھا۔ اُس نے بچے کی پیدائش کو انجوائے کیا تھا۔ جو کی اس بات کا پتا پینسٹھ سال کی عمر میں پتا چلا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے اس کو آپریشن کے بعد مسکراتے دیکھا تھا۔ جو کے بقول اُسے پہلے بھی کبھی درد محسوس نہیں ہوا تھا، مگر چونکہ کسی نے پوچھا نہیں تو وہ کیسے پتا لگا پاتی کہ درد ہوتا کیا ہے۔
وہ تو خود کو ایک خوشگوار روح سمجھتی آئی تھی جس کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ جو مزید کہتی ہیں کہ درد ایک وجہ کے تحت ہوتی ہے، یہ ہمیں ایک خطرے کی گھنٹی کے طور پہ کام آتی۔ ڈاکٹروں کے مُطابق جو کے زخم بہت جلد بھر جاتے ہیں اور جینز کا یہ امتزاج جو کو بھلکڑ اور کم پریشان رکھتا ہے۔ اس طرح جو کی زندگی میں پریشانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جو کہتی ہیں کہ وہ لوگوں کی ہر بات کے بدلے میں مسکرا دیا کرتی تھی جس پر اگلا بندہ جھنجلا کر رہ جاتا تھا۔ مگر اُسے اب پتا چلا ہے کہ یہ سب ایک جینیاتی تغیر، جنیٹک میوٹیشن کا نتیجہ ہے جو کہ اس کو ہر وقت ہنستا مسکراتا رکھتا ہے۔ اس تغیر والے ابھی تک صرف دو ہی لوگ مل پائے ہیں۔ یاد رہے ایسے لوگوں پہ نشہ آور ادیات کا اثر اُلٹ ہوتا ہے۔ مطلب کہ اگر آپ ان کو نکوٹین یا الکوحل پلائیں گے تو یہ بجائے خوش ہونے کے دُکھی ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان میں نشہ کرنے کی جستجو بالکل بھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ پہلے سے ہی خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
اس طرح اگر ہم مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس جینیاتی تغیر کو دیکھیں تو ہم اس بارے سوچ سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان جینز میں جو کہ غصے والے ہارمونز کو کنٹرول کرتے ہیں کو بدل کر ہم ایسے انسان پیدا کر سکتے ہیں جو کہ ہر وقت خوش رہ سکیں گے اور ان کو کوئی ٹینشن نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کا درد اور نہ ہی حسد۔ لیکن وہیں درد نہ محسوس کرنے کی صلاحیت ہمارے لئے کافی نقصاندہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس وجہ سے ہم ایسے زخموں کا پتا نہیں لگا سکتے جو کہ نظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں مگر ان میں انفیکشن کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
ہاں
اگر جسم میں ہر وقت ایسے نینو روبوٹ گھومتے رہیں جو کہ زخم اور انفیکشن کا پتا لگا سکیں تو ہم درد کے بغیر بھی جی سکیں گے اور یہ ایک خوشگوار زندگی ہو سکتی ہے۔ مگر ایسا ممکن بنانا اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ یہ خصائص کسی ایک جین سے کنٹرول نہیں ہو سکتے۔