Sugar Ke Mareez
شوگر کے مریض
ہم فطرت کے قوانین کے خلاف چل رہے ہیں؟ آج ہر طرف شوگر کے مریض ہیں تو ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ شوگر کے اتنے زیادہ مریض کہاں سے آ رہے ہیں؟ کیا ہماری خوراک خراب ہے؟ کیا ہمارا ماحول خراب ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر کوئی شوگر کا مریض بن رہا ہے؟
تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں، تب جب ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تب بچوں کی شرح اموات اتنی زیادہ تھی کہ اگر آٹھ میں سے بمشکل دو بچے ساٹھ ستر سال تک کی عمر تک جاتے تھے، ستر فیصد بچے اپنی پندرہویں سالگرہ منانے سے پہلے ہی فوت ہو جایا کرتے تھے۔ مگر پھر ویکسین آئیں اور ہماری بیماریوں کے خلاف جنگ تیز تر ہو گئی۔ اسی جنگ کو ہم ایک طرح سے جیت گئے اور ہم نے شرح اموات کو کم کر کے چند فیصد پہ لا دیا۔
لیکن اس جیتی ہوئی جنگ کا ہمیں بہت بڑا نقصان ہوا جس کا ذکر آگے جا کر ہو گا۔ سال تھا انیس سو اکیس اور یہ سال بہت بڑا سال تھا کیونکہ اس سال انسولین کی دریافت ہوئی تھی۔ وہ انسولین جو ہمیں شوگر جیسی بیماری سے بچاتی ہے۔ اس دریافت سے پہلے قانون تو یہ تھا کہ شوگر کے مریض جلد ہی فوت ہو جایا کرتے تھے وہ اپنا خاندان شروع کرنے کی نوبت تک نہیں جا پاتے تھے۔ مگر اس انسولین کی مدد سے اب وہ زندہ رہنا شروع ہو گئے تھے۔
نیچرل سلیکشن کا یہ اصول ہے کہ وہ جاندار جو کمزور ہے اسے مار دیا جاتا ہے اور جو مضبوط ہے، طاقتور ہے وہ جیتا ہے۔ لیکن ہم نے انسولین کی مدد سے شوگر کے وہ مریض جو قدرتی انتخاب کے تحت جینے کے اہل نہیں تھے ان کو زندہ رکھنا شروع کر دیا اور ان شوگر کے مریضوں نے آگے شادیاں کر کے اپنے خاندان شروع کر لئے۔ بھئی جینا تو ہر کسی کا حق ہے اسے چھیننا تو نہیں چاہیئے نا، لیکن یہ جینے کا حق دینا ہمیں تھوڑا مہنگا پڑ گیا، کیونکہ شوگر والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔
اس کے جینز والدین اپنے بچوں میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔ پہلے تو ایسے جینز والے لوگ جلد ہی مر جایا کرتے تھے مگر اب وہ اپنی اولاد پیدا کر رہے تھے جن کے پاس نارمل وراثت کے ساتھ ساتھ وہ وراثتی جینز بھی تھے جو شوگر کی بیماری کا باعث بن رہے ہیں سو انسولین کی مدد سے ہم نے شوگر پہ مصنوعی قابو تو پا لیا لیکن وہیں اپنے بچوں کو اس بیماری کا شکار بنا دیا۔
ایک عام بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو سو نئی میوٹیشن یا پھر تغیئر لاتا ہے جن میں سے پانچ تغیئر نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن اب کے انسانوں کے جینیاتی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ آج کے بچوں میں یہ تغیر زیادہ ہیں۔ کیونکہ ویکسین کی وجہ سے ایسے والدین جو قدرت کے قانون کے مطابق جینے کے لئے موزوں نہیں تھے وہ پچھلے سو سالوں سے اپنا وراثتی مواد نئی نسلوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آج موٹاپہ، دمہ اور شوگر جیسی بیماریوں کا تناسب بڑھ چکا ہے۔
اس سارے تجزئیے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی لونی مادہ یا پھر جینوم خرابی کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن اگر ہم ادویات اور بائیولوجی کی تحقیق میں اسی رفتار سے جاتے رہے تو ہم ان جینیاتی بیماریوں کا مکمل علاج بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن تب تک ہمیں ہر کسی کو جینے کا حق دینا ہو گا، چاہے وہ قدرتی قوانین کے تحت جینے کے لئے ناموزوں ہی کیوں نا ہو۔