Seerat Aur Nasreen
سیرت اور نسرین
ضلع گورداسپور لاہور ڈویژن کا حصہ تھا بٹوارے کے وقت یہاں کی 47% آبادی مسلمان تھی اور جہاں گورداسپور کی نسرین بی بی کو یقین تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گی تو وہیں لیسرکلاں کی سیرت بٹر کو بھی یقین تھا کہ وہ جیسے آج 12 جولائی کو کھیتوں میں روٹی دینے جا رہی ہے ویسے ہی وہ ہمیشہ جاتی رہے گی۔
دونوں یونہی دنیا و مافیا سے بے پرواہ اپنے بال بچوں اور ڈھور ڈنگر کیساتھ جی رہی تھی۔ اور تب کی عورت کی زندگی تھی ہی ایسے، بستر سے چولہا، چولہے سے کھیت، کھیت سے گھر اور گھر میں پھر بستر پہ سو جانا، بے فکری کی یہ زندگی ایک شخص کو پسند نا تھی، یہ شخص تھا ریڈ کلف، بٹوارہ ہو چکا تھا، جہاں امرتسر میں اب نسرین کو ماں کہنے والا امرجیت سنگھ کن اکھیوں سے دیکھنا شروع ہو گیا تھا۔
تو وہیں سیرت بٹر کو بھی اب راستے میں کرم دین جان بوجھ کر ٹکرا جایا کرتا تھا اور اکثر سوال اٹھنے پہ یہی کہا جاتا کہ تمہارا دھرم تو ایسا ہے ویسا ہے۔ پھر بھی دونوں کے دلوں کو سکون تھا کہ ان کے گھر، بال بچے، ڈھور ڈنگر سب پاس ہی رہے گا اور وہ بٹوارے سے محفوظ رہ جائیں گی۔ مگر 17 اگست کا دن ایک قیامت کا آغاز تھا۔ ریڈ کلف کو پتا تھا وہ جا رہا ہے اور اگر پیچھے سیرت کو اگر کرم دین بہن کہے گا یا نسرین بی بی کو امرجیت ماں کا رتبہ دے گا تو وہ نفرت کا کاروبار کیسے چلائے گا؟
اس دن ریڈ کلف نے اعلان کیا کہ تحصیل گورداسپو لاہور ڈویژن کا حصہ نہیں رہے گی۔ اس بات کا مقصد محض یہ تھا کہ جموں تک بھارت کو رسائی ملی رہے اور یہ دو قومیں کبھی بھی چین سے نا جی پائیں۔ جہاں ایک طرف سے روتی پیٹتی نسرین امرتسر ریلوے سٹیشن پہنچی تو وہیں سیرت نارووال کے سٹیشن پہ سیالکوٹ سے چلی سپیشل ٹرین کا انتظار کر رہی تھی۔
وہ پنجابنیں جو اپنے شوہر کے سامنے بھی پردہ کرکے بیٹھتی تھی۔ وہ آج ان کا ہاتھ تھامے چپک کر ساتھ چل رہی تھیں کہ کہیں بچھڑ نا جائیں۔ دونوں طرف سے ٹرین چلی مگر ایک طرف سے کرپان کی آواز آئی تو دوسری طرف تلوار کی، وہ نسرین، وہ سیرت جو دو ماہ پہلے سیاست کی الف ب سے واقف نا تھیں ایک بدیشی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ٹرین کا یہ ڈبہ راستے میں ہی رہ گیا اور وقت کی ٹرین کہیں دور نکل گئی۔
جہاں اب بھی راوی کے اس پار والے راوی کے دوسری پار والوں کو ہزاروں سال بھائی سمجھنے کے بعد اب دشمن مانتے ہیں۔ حالانکہ نا امرجیت سنگھ کی کرم دین سے ذاتی دشمنی ہے نا کرم کی امر سے، پھر بھی انکے پوتے پوتیاں ایکدوسرے کو دشمن مانتے ہیں اور ٹرین کا یہ ڈبہ یہی کھڑا زنگ آلود ہو چکا ہے، جس پہ کبھی سیرت اور نسرین کا خون بہا تھا۔ ٹرین اب زنگ آلود ہو چکی تھی، ٹرین کی بوگیاں اب بچھڑ چکی تھی۔