Purani Industrial Machinery Aur Maholiyati Aloodgi
پرانی انڈسٹریل مشنری اور ماحولیاتی آلودگی
لاہور اور کراچی دنیا کے بڑے انڈسٹریل شہر ہونے کے بغیر بھی دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہر ہیں۔
وجوہات؟ نئی ماحول دوست مشینری کی بجائے پرانی فاسل فیول پہ چلنے والی مشینری، اور یہ مشینری بھی موسٹلی ترقی یافتہ ممالک سے سکریپ کے معاہدوں کے بعد یہاں آتی ہے۔ نئی گاڑیوں کی بجائے پرانے سٹینڈرڈ پہ بنی نئی یا دہائیاں پرانی امپورٹڈ گاڑیاں جو کہ زہریلی گیسز خارج کرنے کا بہت بڑا سبب ہیں اور ان گاڑیوں کی ہیلتھ فٹنس چیک اپ نا ہونا، آپ لاہور کسی بھی جگہ چلے جائیں اگر آپ کو اپنے سامنے کوئی دھوئیں والی گاڑی یا رکشہ نا ملے تو سمجھ جائیں لاہور نہیں ہیں۔
بے ہنگم آبادی جس میں سبزہ نا ہونے کے برابر ہے۔ سڑک کے گرد لگے پودے اتنے مفید کبھی نہیں ہو سکتے جتنے گھروں میں یا شہر سے باہر جنگل کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنیادی وجہ پچھلی پوسٹ میں لکھی ہے۔ دہراتا چلوں کہ ہماری حکومتیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر اتنا زیادہ ٹیکس لگا چکی ہیں کہ ہم مجبوراً بیس سے تیس سال پرانی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اپنے ماحول کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔
اگر لاہور اور کراچی میں سے اوپر والے دونوں فیکٹرز کو ہٹا کر سستی بجلی پر چلنے والے کارخانے ہوں اور ان کیساتھ ساتھ گاڑیوں کی ریگولیشن کر کے 2000 سے پرانی تمام گاڑیاں اور تمام سستے موبل آئلز پہ چلنے والے رکشے بند کر دئیے جائیں تو یہ شہر دو سے تین سالوں میں فضائی آلودگی میں نیچے آ جائیں گے۔ وہیں ان شہروں میں انڈسٹریل ویسٹ کی مینجمنٹ کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہاں کے کوالٹی کنٹرول آفیسرز کی سی وی میں ایم ایس انوائرمینٹل انجینئرنگ کی ڈگری تو ہے مگر ہر مہینے سٹیل ملز اور پلاسٹک مینوفیکچرنگ یونٹس سے آئے چیک ان کو آرام سے بیٹھنے دیتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ آپ صبح پانچ سے دن کے بارہ تک رنگ روڈ، جی ٹی روڈ اور موٹروے پر حد سے زیادہ سموگ دیکھیں گے جو کہ ان سڑکوں کے اطرف میں موجود کارخانوں کی چمنیوں کی دین ہے۔ حالانکہ کسی بھی مہذب ملک میں بلکہ ہمارے ملک کے قانون میں بھی ایسے کارخانے یا تو شہر سے باہر لگانے کا حکم ہے یا ان کی چمنیوں سے دھواں نکلنے سے پہلے اس کو فلٹر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے آپ کبھی اسلام آباد یا ٹیکسیلا آئیں، اتنی ہیوی انڈسٹری میں نے لاہور نہیں دیکھی جتنی وہاں ہے مگر پالیوشن نا ہونے کے برابر ہے کیونکہ ریگولیشن اچھی ہو رہی ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں زیر استعمال مشنری کو اپ گریڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اپ گریڈ کا مطلب یہ نہیں کہ چائینہ یا جرمنی سے متروک انڈسٹریل مشینری لائی جائے بلکہ جدید ماحولیاتی سٹینڈرڈ پر مشینری یہاں بنائی جائے مگر ایسے کاموں پہ ٹیکس اتنے ہیں کہ لوگ سوچنے سے پہلے توبہ پڑھتے ہیں اور پھر دہائیوں پرانی انڈسٹریل اور آٹوموبل مشنری جو کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلاتی ہے اس کو استعمال کر کے لوگوں کو بیمار کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کچھ سال اس آلودگی کی شکایت بھارت نے بھی کی تھی کیونکہ ہمارے ائیر کرنٹ یا پھر ہوائی دباؤ کی وجہ سے یہ آلودگی قریبی بھارتی چہروں کو بھی گندہ کر رہی ہے۔
مگر
۔ Zero actions are taken and will be taken