Old Age Home Aik Nemat
اولڈ ایج ہومز ایک نعمت
ہماری ایک بہت بری سماجی عادت ہے کہ ہم رشتے میں دوری اختیار کرنے کی بجائے تب تک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں جب تک اگلا ہمیں نفرت کی حد تک ناپسند نہیں کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی کچھ جوائنٹ فیملیز میں ہوتا ہے۔ صرف ایک دو نہیں بلکہ پاکستان کی آدھی سے زائد جوائنٹ فیملیز ایسی ہیں جہاں پر بوڑھے ہوتے والدین کو ایک عذاب سمجھا جاتا ہے۔
کیوں؟ کیونکہ یہی بوڑھے جب جوان تھے اور جب بچوں کی شادیاں ہوئی تھی تو انہوں نے اپنی بہو کو کبھی بیٹی نہیں سمجھا ہوتا ہے۔
اب جب وہ بہو جو جوانی میں کمزور تھی ان کی محتاج تھی ایک ہتک امیز رویے سے گزرتی ہے تو اس کے دل میں بھی ایک خلش باقی رہتی ہے۔ وہ جس کے شوہر کی جوانی کے حسین سال اس خاندانی سیاست کی کشمکش میں گزر جاتے ہیں وہ جب طاقت رکھتی ہے تو وہ بھی پورے پورے بدلے اتارنا پسند کرتی ہے۔
وہیں پر کچھ ساس سسر اچھے ہوتے ہیں لیکن بہو جھگڑالو ہوتی ہے اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سب کے بعد وہ بزرگ جن کا بڑھاپے میں خیال رکھنا چاہیے ان کو دو وقت کی روٹی بھی جانوروں سے بدتر طریقے سے دی جاتی ہے۔
میں خود ایسے کئی خاندانوں کو جانتا ہوں جہاں ساس یا سسر جب اپنی بہو کے محتاج ہوئے تو بہو کو اس کی ہر بات چھبنے لگ پڑی تھی اور وہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلانے کو بھی عذاب سمجھتی تھی۔
ایسے گھرانوں میں عموماََ مردوں کے ہاتھ میں طاقت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے سو یہ بوڑھے نہایت برے طریقے سے ذلیل و رسوا ہو کر مرتے ہیں۔
وہیں پر ان بوڑھوں کے انہی بچوں سے، جن کو انہیں دو وقت کی روٹی دینا عذاب لگتی ہو، سے پوچھا جائے کہ آپ اپنے باپ کو اولڈ ایج ہوم کیوں نہیں بھیج دیتے؟ تو وہ کہیں گے کہ اولڈ ایج ہوم لعنت ہے کیوں ہماری ناک کٹوانا چاہتے ہو؟
آپ میں سے زیادہ تر لوگ بھی اولڈ ایج ہومز کو لعنت سمجھتے ہیں۔ کل یورپئین فیملی سسٹم پر بات کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے کہا کہ ان کے بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد اولڈ ایج ہومز میں رہتی ہے، جبکہ اعداد و شمار کے مطابق بوڑھوں کی تعداد کا دس فیصد سے بھی کم وہاں رہتا ہے جو کہ غریب ہوتا ہے اور اولاد کی سپورٹ نہیں رکھتا۔
جبکہ باقی بوڑھے ذاتی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ گھر عموماََبچوں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں سو دن کو ان کے ساتھ بھی وقت بیتا لیتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک خود مختاری اور عزت نفس پہلے ہے اور محتاجی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ہر حال میں بوڑھوں کو ذلیل اور محتاج ہونا پڑتا ہے، نا تو ان کا ذاتی گھر ہوتا ہے، نا ہی ان کے پاس اولڈ ایج ہوم جانے کا راستہ ہوتا ہے اور یہ سارا بڑھاپہ اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہوتے مر جاتے ہیں اور اولاد خاص کر بہووئیں بھی اتنی ہی لعنتی ہوتی ہیں کہ یہ سسر یا ساس کو کھانا کھلانے کو بھی عذاب سمجھتی ہیں۔
مستقبل میں خود بھی اپنی ساس جیسی ساس بن کر یا سسر بن کر اپنے لئے بھی ویسے ہی کانٹے بچھانا شروع کر دیتی ہیں۔ وہیں پر ایسے بوڑھے اگر اولڈ ایج ہوم چلے جائیں تو وہاں انہیں دو وقت کی روٹی ایک عزت دار طریقے سے مل سکتی ہے۔ لیکن اس عزت دار طریقے کو ہم نعمت کی بجائے لعنت کہہ کر کئی کروڑ گھرانوں میں موجود بوڑھوں کو اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔