Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Mutations (1)

Mutations (1)

میوٹیشنز (1)

زندہ دِل کچھوے، کینسر سے مدافعت رکھنے والے ہاتھی اور سُپر انسان یہ زمین عجیب و غریب جانوروں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کچھوے سو دن تک بغیر آکسیجن کے زندہ رہ سکتے ہیں تو کئی جاندار اپنے جسم کے حصے دوبارہ اُگا سکتے ہیں اور تو اور ہاتھی کینسر کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ تو کیا ہم انسان بھی ایسی سُپر پاور نہیں رکھ سکتے؟

یہ سوال تب اُٹھا جب محققین نے کچھوے کے ایمبریو کو کم آکسیجن مہیا کی، اس کم آکسیجن مہیا کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں وہی کچھوے کے دِل کے ٹشو جو 21% آکسیجن میں زندہ رہ سکتے تھے اب دس فیصد سے کم میں بھی زندہ رہنے لگے۔ یوں تو کچھوے بغیر آکسیجن یا بہت کم آکسیجن کی موجودگی میں برف کے اندر یا کسی اور زیرِ زمین جگہ پہ دنوں تک رہ سکتے ہیں لیکن یہ عمل کافی الگ تھا۔

اس عمل میں انہوں نے کچھوے کے ایمبریو (مادرِ رحم) کو آکسیجن کی بہت کم مقدار فراہم کی جس کے نتیجے میں کچھوے کے ٹشو ہائپاکسیا نامی حالت کا شکار ہو گئے۔ یاد رہے ایسی ہی حالت دل کا دورہ پڑنے پہ ہوتی ہے۔ جب کچھوے ایمبریونک سٹیج میں اس حالت میں گئے تو اُن کے کچھ ایسے جینز آن ہو گئے جو اُن کے جسم کے ٹشوز کو کم آکسیجن میں زندہ رہنے میں مدد دے سکتے تھے۔ بعد میں کیمیائی تجزیہ کرنے پہ بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی۔

چونکہ کچھوؤں کا دل اور انسانوں کا دل ایک جیسے ہی ٹِشو رکھتا ہے۔ ایسے میں اس تحقیق کے بعد سائنسدان ایسی دوا کو بنانے کی خواہش رکھتے ہیں جو کہ انسانی دل کے جینز کو اس طرح آن کر دے کہ وہ بھی ان کچھوؤں کی طرح کم آکسیجن میں زندہ رہ سکیں۔ یاد رہے کم آکسیجن کی موجودگی اکثر دل کے دورے میں نظر آتی ہے۔ سو اس دوائی کے بننے کے بعد انسان دل کے دوروں سے ایک حد تک بچ سکے گا اور تو اور ہم میں ایک سُپر پاور آجائے گی جس کے تحت ہم بغیر یا کم آکسیجن کے ایک خاص وقت تک زندہ رہ سکیں گے۔

اسی طرح بہت سے جانداروں میں ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جن کے ذریعے وہ بہت خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کر لیتے ہیں جیسا کہ ہاتھی، ہاتھی کینسر کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ اگر ہم ہاتھیوں کی اس خوبی کی جینیاتی وجوہات کو پڑھیں اور مزید تحقیق کریں تو ہم ایسی دوائی بھی بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو کہ ہمیں کینسر سے بچا سکتی ہے۔

ہاتھی عام جانداروں سے کئی گُنا زیادہ خلئے رکھتے ہیں اور تمام جاندار کینسر کا شکار ہوتے ہیں لیکن ہاتھی اس کا اتنا شکار نہیں ہوتے۔ سائنسدان جانتے ہیں کہ p53 نامی جینز کینسر کے خلاف مدافعت کا کام کرتا ہے۔ یہ ہر جاندار میں ایک کاپی رکھتا ہے لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ ہاتھی اس جینز کی بیس کاپیاں رکھتے ہیں جو کہ ہاتھی کو کینسر سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

مگر یہ تو تحقیق کی ایک کڑی تھی، دوسری کڑی کا پتا اب چلا کہ LIF6 نامی جینز جو کہ انسانوں اور باقی تمام جانداروں میں آف یا بند حالت میں موجود ہوتا ہے یہ ہاتھیوں میں آن حالت میں موجود ہوتا ہے، اور یہ زومبی جینز ڈی این اے کی بغیر کسی خرابی کے نقلیں بنانے میں مدد دیتا ہے اور کینسر کے خلاف لڑائی میں کام آتا ہے۔ یہ بات ہاتھیوں کو کینسر سے بچانے میں پچھلے تیس ملین سالوں سے کام آ رہی ہے۔

اب تک 17% انسان کینسر سے مرتے ہیں جبکہ ہاتھیوں میں یہ شرح صرف آٹھ فیصد ہے جو کہ حیران کُن حد تک کم ہے اور یہ ان دو جینز کی وجہ سے ہی ہے۔ لیکن ابھی تحقیق باقی ہے یہ تحقیق مکمل ہونے پر ہم ایسا جینیاتی علاج، جین تھیراپی متعارف کروا لیں گے جو انسانوں کو کینسر سے بچا سکے گی اور یہ انسانوں کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔ جبکہ کم آکسیجن میں زندہ رکھنے والے علاج کی تجویز بھی ابھی زیرِ غور ہے۔

روپ بہروپ،اپنی ہی جڑواں بہن لڑکی اور ہرے خون والا شخص۔

یہ دُنیا اپنے اندر اتنے زیادہ راز رکھتی ہے کہ ہم اُن میں سے ایک فیصد تک کو بھی جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ایک کہکشاں میں ارب ہا ستارے اور سیارے موجود ہیں۔ اب ان ارب ہا اجرامِ فلکی پہ کیا کیا موجود ہے یہ راز ہم کبھی بھی مکمل طور پہ نہیں جان سکتے۔ اسی طرح ہمارا جسم اربوں خلیئوں سے بنا ہوا ہے۔ لیکن ہر خلئیے کے پاس ایک جیسا ڈی این اے موجود ہے۔

ہماری آنکھ اور معدے دونوں کے پاس ایک جیسا ڈی این اے موجود ہے لیکن اس ڈی این اے کا اظہار مختلف جگہوں پہ مختلف طرح سے ہوا ہے اسی لئے ہمارا معدہ اسی ڈی این اے کیساتھ تیزاب خارج کرتا ہے تو وہیں یہی ڈی این اے آنکھوں میں آنسو خارج کروا رہا ہے۔ یہ مظہر ڈی این اے کے ترجمہ (ٹرانسلیشن) کے عمل کے دوران ہوتا ہے جس میں ہر سیل میں موجود جین (ڈی این اے کا چھوٹا سا ٹکڑا) صرف اُسی شکل میں ڈھلتا ہے جس شکل کے خامرے وہاں پہ موجود ہوتے ہیں۔

جیسا کہ معدے کے تیزاب خارج کرنے والے خلئے ہیں۔ خیر یہ پیچیدہ عمل ایک علیحدہ تحریر کا متقاضی ہے۔پہلے تو ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ ہمارے جسم میں صرف ایک ہی طرح کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے لیکن ایک ایسی بیماری بھی کرہ ارض پہ موجود ہے جس میں ایک شخص کے جسم میں دو طرح کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے۔ دو طرح کے ڈی این اےکے اس اظہار کو ہم کائی مریزم کے نام سے بلاتے ہیں۔

دنیا میں ہر تیس میں سے ایک شخص جڑواں بہن یا بھائی رکھتا ہے لیکن یہ حالت کافی عجیب ہے اس میں متعلقہ شخص اپنا ہی جڑواں بھائی، بہن ہوتا ہے۔ اس بیماری کے ابھی تک صرف سو مریض ہی سامنے آئے ہیں۔ یہ مظہر کیسے رونما ہوتا ہے یہ کافی حیران کن پہلو ہے؟ یونانی فلسفہ ایسے کرداروں سے بھرا ہوا ہے جس میں کائی میرا نامی مخلوق کا ذکر موجود ہے ایسے کردار دو مختلف جانوروں کا امتزاج ہیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra