Kamyab Hota Peene Ka Pani
کم یاب ہوتا پینے کا پانی
ہمارے بچپن میں ٹونٹیوں کا پانی بالکل صاف ہوا کرتا تھا۔ تب رواج یہ تھا کہ ہر دوسرے گھر میں زیادہ سے زیادہ گہرا بور بھی پچاس سے ساٹھ فٹ کا ہوتا تھا اور اس سے نکلنے والا پانی پینے کے قابل ہوتا تھا۔
یہ اتنی پرانی بات نہیں ہے یہی کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ مگرپھر آبادی کے بڑھنے اور انڈسٹری کے لگنے کی وجہ سے صاف پانی کمیاب ہوگیا اور اس کے ملنے کا پیمانہ پچاس ساٹھ فٹ سے سیدھا تین سو فٹ کی گہرائی پر چلا گیا۔
یہ بہت الارمنگ صورتحال تھی، شائد میں تب نویں کلاس میں تھا یعنی کہ دس سال پہلے، تب سیالکوٹ میں ہیپاٹائٹس کی وباء زور پکڑنا شروع ہوگئی تھی اور آج وہاں بیس لاکھ تک لوگ اس بیماری کا شکار ہیں اور ان کا علاج کہیں ممکن نہیں ہے۔
لیکن اس پر کسی نے غور نہیں کیا، شہباز شریف نے پنجاب پر پندرہ سال سے زیادہ حکومت کی لیکن اس نے ماحول کو مزید بگاڑنے والے منصوبے لگانے پر زور رکھا لیکن ایک بھی ایسا منصوبہ نہیں لگایا جس سے آبادی کو صاف پانی کی فراہمی آسان ہو سکے۔
عموما ہر طرح کا پانی ایک خاص فلٹر کے بعد ندی، نالوں یا نہر وغیرہ میں گرایا جاتا ہے مگر پاکستان میں نیچے تصویر میں نظر آنیوالے نالوں میں بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے پانی بہا دیا جاتا ہے اور یہی پانی زیر زمین پینے کے پانی کو آلودہ کرتا جا رہا ہے۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان گندے نالوں کے اطراف میں انسان رہتے ہیں اور ان کے حالات بدلنے کی طرف کسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
دوسری طرف بڑھتی آبادی اس پانی کو مزید تیزی سے ختم کرتے جا رہی ہے۔ لاہور میں جابجا ایسے نالے ہیں اور ان نالوں کی حالت بدلنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور آج پورا پنجاب صاف پانی سے محروم اور ہیپاٹائٹس سے بھرا پڑا ہے۔
یورپ میں یہی صورتحال ہلکی پھلکی سی ظاہر ہونا شروع ہوئی تھی مگر انہوں نے اپنے نئے قوانین بنائے اور ہر ملک پر لاگو کیا کہ فلاں پانی کو فلاں ٹریٹمنٹ کے بغیر بہانے پر اتنا جرمانہ ہوگا۔
اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج آدھے سے زیادہ یورپ میں آپ ٹونٹی کا پانی بغیر کسی ڈر یا خوف کے پی سکتے ہیں اور کسی بھی بیماری کا شکار نہیں ہو سکتے ہیں۔
جبکہ جتنی تیزی سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اگلے دس سالوں میں پانی کی کمیابی اور اس پر صوبوں کی لڑائی ایک عام بات ہو جائے گی۔ اور ابھی بھی اسلام اباد، پنڈی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں ٹینکر مافیا کا قبضہ ہو چکا ہے اور باقی شہروں پر بھی ہو جانا ہے اور بڑے سیاسی انجینرنگ ہی کرتے رہیں گے اور آدھی سے زیادہ آبادی بیمار ہو کر جئیے گی۔