Ideal Aur Haqiqat
آئیڈیل اورحقیقت
جس دن آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کسی شخص کے ساتھ جذباتی طور پہ اٹیچ ہورہے ہیں اسی دن اپنے ذہن میں موجود اس آئیڈیل کو مار دیں جس کو آپ اپنا جیون ساتھی امیجن کرتے آئے ہیں۔ کیونکہ آئیڈیل کبھی نہیں ملتے بلکہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے جو ملتا ہے اسی کو آئیڈیل بنانا پڑتا ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن میں موجود آئیڈیل کا قتل نہیں کریں گے تو یا پھر آپ کا ریلیشن شپ کچھ عرصہ بعد ٹوٹ جائے گا یا پھر یہ آپ کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دے گا۔
پیار بھرے ریلیشن شپ میں نفرتیں کیوں پروان چڑھتی ہیں؟ ریلیشن شپ بارے میں جتنے بھی کیس سٹڈیز دیکھے ان میں کوئی بھی رشتہ خراب ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ آئیڈیلز والی نکلتی ہے۔ اس میں کوئی بھی شخص اپنے ذہن میں موجود اس آئیڈیل کے تصورات سے ہی نہیں نکل پاتا جس کے اس نے خواب سجا رکھے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ شخص نا چاہتے ہوئے بھی اگلے سے ہرٹ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ہم کبھی بھی کسی بھی شخص کے ساتھ اس کی حقیقی پرسنالٹی کی وجہ سے اٹیچ نہیں ہوتے بلکہ اپنے ذہن میں موجود اس شخص کے بنے آئیڈیل کی وجہ سے اٹیچ ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہم نے سنا ہوتا ہے۔ ایسے میں جتنا جلدی ہم اس شخص کی پرسنالٹی کو تسلیم کرلیں اتنی جلدی ہم اس شخص کو اپنے دل میں زیادہ جگہ دے سکتے ہیں۔
اسی طرح لانگ ٹرم ریلیشن شپ میں جو پرابلم سامنے آتی ہے اس میں شادی کے کچھ سالوں بعد لڑائی جھگڑے ہیں۔ ان لڑائی جھگڑوں کی پہلی وجہ اوپر ہے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ شادی کے بعد جوڑا ایک دوسرے کی تعریف کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
ریلیشن شپ سائیک تھیراپی جس میں سالوں لمبے تعلق کے بعد طلاق کی نوبت پہ آئے جوڑوں کی کاؤنسلنگ کی جاتی ہے اس میں جوڑوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ وہ چیزیں کاغذ کی ایک سائیڈ پہ لکھیں جو کہ ایک دوسرے میں پسند کرتے ہیں۔ اور پھر ان کی روٹین پوچھی جاتی ہے۔ یہاں سے ہم کسی بھی ریلیشن شپ کے بارے میں پہ پیشن گوئی کر سکتے ہیں کہ آیا وہ بحال ہو سکتا ہے یا نہیں۔ عموما جب ہم کسی ایسے جوڑے سے یہ پوچھیں کہ آخر بار آپ نے ایک دوسرے کی تعریف کب کی تھی، تو جواب سننے کو ملتا ہے، یاد نہیں۔
تیسری جو وجہ سامنے آتی ہے وہ اسی تعریف کی ذیلی وجہ بنتی ہے۔ جس میں پارٹنر دن بھر کا تھکا ہارا آتا ہے اور بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آگے سے اسے جلے کٹے جواب یا ادھوری فرمائشوں کی لسٹ مل جاتی ہے۔ یہ لسٹ کبھی کبھار ملنے پہ برا نہیں لگتا، لیکن وہیں زیادہ تر ٹاکسک ریلیشن شپ میں ایسا کام ہر روز ہوتا ہے۔ ہر روز دونوں میں سے ایک پارٹنر، اگر مرد کمانے والا ہے تو آبویسلی بیوی اس کو طعنے دینا شروع کر دیتی ہے کہ آپ نے بنایا ہی کیا ہے، آپ کی بہنیں بھائی آپ کو لوٹ کر کھا گئے وغیرہ وغیرہ یا دوسری طرف اگر شوہر تھوڑا حساس ہے تو وہ بیوی کے سر پہ بندھا پٹکا دیکھ کر گھوم جاتا ہے کہ سارا دن باہر خوبصورت جوڑے دیکھنے کے بعد جب قرب کا موقعہ ملتا ہے تو یہ پٹکا باندھنے والی مخلوق حصہ آتی ہے۔ یہیں سے شروع ہوئی نوک جھونک چڑچڑے ریلیشن شپ کی بنیاد رکھتی ہے۔
چوتھی وجہ جو سامنے آتی ہے وہ ایک دوسرے کے موڈز کو نا جاننا ہے۔ ایسے تعلقات میں عموما ایک پارٹنر حد سے زیادہ کئیرنگ ہوتا ہے اور وہ بات بات پہ فکر کرتا ہے۔ ایسے شخص کو ہم conscientious شخص بھی کہتے ہیں۔ ایسا شخص اگلے کے موڈ کا حد سے زیادہ خیال رکھ کر کوشش کرتا ہے کہ وہ اگلے کو دکھ نا پہنچائے۔ وہیں اگر ایسے حساس شخص کو ایسا پارٹنر مل جائے جو کہ نہایت غیر ذمہ دار اور ایموشنز کا احساس نہیں رکھتا تو پھر نتیجتاً حساس شخص چڑچڑا ہو جاتا ہے اور یوں گھر اکھاڑہ بن کر رہ جاتا ہے۔
پانچویں وجہ پاکستان میں بہت کامن ہے کیونکہ یہاں جائینٹ فیملی سسٹم بہت زیادہ ہے۔ اس سسٹم میں والدین بچے کو بطور انسان نہیں بطور اثاثہ لیتے ہیں۔ مطلب اٹھارہ بیس سال تک وہ بچے پہ ایک "انویسٹمنٹ" کرتے ہیں اور بعد میں اس کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں گو یہ بات اتنی بری نہیں کیونکہ اولاد پہ والدین کا حق ہے مگر یہ حق تب ثانوی ہو جاتا ہے جب بچے کی شادی ہو جائے۔ لیکن یہاں یہ بات سمجھی ہی نہیں جاتی۔
یہاں کبھی بھی ماں اور بہنیں بھابھی سے اس بات پہ نہیں لڑیں گی کہ بھائی اس کو زیادہ پیار کر رہا ہے بلکہ یہاں پہلی خاندانی لڑائی تب ہوتی ہے جب شوہر بیوی کو کوئی گفٹ لا کر دیتا ہے یا اپنی تنخواہ سے کچھ دیتا ہے۔ تب شروع ہوئی نوک جھونک آخر میں شوہر کو وہ سب کرنے سے روک دیتی ہے جس سے بیوی خوش ہو اور بیوی شوہر کے لئے وہ کچھ کرنا چھوڑ دیتی ہے جو کہ شوہر کو پسند ہوتا ہے اور نتیجتاً کنڈیشن نمبر 2 اور 3 سامنے آ جاتی ہے اور بعض اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی بھی ٹاکسک ریلیشن شپ کو رکھنے کی بجائے طلاق لینا بہتر ہے لیکن وہیں اگر بچے ہوگئے ہیں تو چاہے یہ جوڑا مغرب کا ہو یا مشرق کا، اس کو یہی مشورہ دینا چاہیے کہ طلاق لینے کی بجائے بچے کے 17 کا ہونے تک خود کیساتھ کمپرومائز کرنا سیکھیں۔
میں نے اب تک جتنے سائیکالوجسٹس کو سنا اور خود ایسے کیسز کو اینالائز کیا تو اسی نتیجے پہ پہنچا کہ بچہ/بچے ہونے کے بعد طلاق دینا ایک احمقانہ کام ہے۔ اور اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں دو نہیں چار زندگیاں تباہ ہوتی ہیں چار اس طرح کہ طلاق یافتہ پیرنٹس کے بچے ریلیشن شپ میں زیادہ تر ناکام جاتے ہیں اور انکی پرسنالٹی کافی منفی ہوتی ہے۔ جو کہ انکی زندگیاں تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔
خیر اس پہ پھر کبھی بات ہوگی۔ کافی دنوں سے یہ پوائنٹس ذہن میں تھے سوچا شئیر کروں گا۔ اس بارے آپ کا ذاتی تجربہ کیا کہتا ہے ضرور بتائیے گا۔