Ghareeb Middle Class Aur Ameer
غریب، مڈل کلاس اور امیر
میں اعداد و شمار پڑھنے کا کافی شوق رکھتا ہوں، کیونکہ اوقات دکھانے کے لئے یہ اعداد و شمار کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے ابھی آپ کو میں کہوں کہ اگر آپ کے پاس اپنی کار ہے، تو آپ ان نوے فیصد پاکستانی گھرانوں سے "زیادہ امیر" ہیں جو کہ کار جیسی "عیاشی" خریدنے کی سکت تک نہیں رکھتے۔
مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں غریب کون ہے؟
ہم میں سے کوئی بھی شخص غریب پیدا ہونا نہیں چاہتا، نا ہی کبھی وہ غریب رہنا چاہتا ہے۔ مگر ہم میں سے کسی کے پاس بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے اپنے ہونے والے گھرانے کی حثیت کے لحاظ سے ان کا انتخاب کر سکے۔ اس وقت غربت کا تعین مختلف طرح کے میٹرکس سے کیا جاتا ہے، سب سے زیادہ قابل بھروسہ پیمانہ گلوبل ویلتھ رپورٹ ہے۔ یہ رپورٹ Credit Suisse نامی ادارہ جاری کرتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق ایک گھرانے کی حیثیت کا تعین ہم اس ملک کی دولت کے لحاظ سے کرتے ہیں۔
پاکستان میں مڈل کلاس گھرانے میں خود کو گننے کے لئے ہمیں اپنا بینک اکاؤنٹ یا اپنے اثاثہ جات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ اثاثہ جات اگر اٹھارہ سال کی عمر کے بعد بھی آپ کے نام نہیں ہے یا نہیں ہو سکتے تو آپ سادہ الفاظ میں خود کو غریب کہہ سکتے ہیں۔ وہیں اگر امکان ہے کہ آپ کو جائیداد میں حصہ مل سکتا ہے یا پھر باپ دادا کی طرف سے اثاثہ جات میں کچھ مل سکتا ہے اور اگر ان کی مالیت اکیس لاکھ سے اوپر ہے تو آپ ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسے میں لوئر اور اپر مڈل کلاس کا کیا بنتا ہے؟
اس کو ہم اسی سکیل کے مطابق تقسیم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس فقط (جی ہاں یہ فقط ہی ہیں) اکیس لاکھ روپے سے چالیس لاکھ تک کا بیلنس موجود ہے، تو آپ ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شخص ہیں۔ وہیں اگر آپ کے پاس اکیسی لاکھ سے پونے دو کڑوڑ تک کے اثاثہ جات موجود ہیں، تو آپ کا تعلق ایک اپر مڈل کلاس گھرانے سے ہو گا۔ اس سے اوپر کے اثاثہ جات والوں کو آپ بلاشبہ امیر اور نیچے والوں کو غریب کہہ سکتے ہیں۔
عالمی سطح کے لحاظ سے یہ بہت کم رقم ہے جبکہ انڈیا میں یہ مزید کم ہو کر فقط پندرہ لاکھ پاکستانی رہ جاتی ہے۔ مطلب ہمارے ہاں کا غریب انڈیا میں مڈل کلاس سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ یوکرائن اس سے بھی کم بارہ لاکھ کی لمٹ رکھتا ہے۔ مزید اگر اعداد و شمار دیکھیں تو کافی بھیانک صورتحال نظر آتی ہے۔ بھیانک اس طرح سے کہ مجھے یہ سب پڑھ کر دکھ ہوا کہ بیس لاکھ جتنی کم رقم رکھنے والا شخص مڈل کلاس سے ہو سکتا ہے، حالانکہ بیس لاکھ عالمی لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہیں۔
یہاں دولت کی تقسیم بہت غیر منصفانہ ہے۔ تقریباََ نوے سے بانوے فیصد پاکستانی اس وقت اپنے نام پندرہ لاکھ بھی نہیں رکھتے۔ جی ہاں اور یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ فقط 9 سے 8 % پاکستانی پندرہ لاکھ سے ڈیڑھ کڑوڑ روپے رکھتے ہیں۔ مطلب آپ کے پاس ڈیڑھ کڑوڑ روپے موجود ہیں، تو آپ دس فیصد خوش نصیب اور "امیر" پاکستانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہیں صرف 0 سے 1 % اڈلٹس کے پاس ڈیڑھ کڑوڑ سے اوپر دولت موجود ہے۔
اسی طرح اس وقت پاکستان میں صرف پچاس فیصد گھرانوں کے پاس اپنی بائیک موجود ہے جبکہ دس فیصد گھرانے کار جیسی "عیاشی" افورڈ کر سکتے ہیں۔ ابھی ایک ڈرامہ "پردیس" دیکھ رہا تھا، مجھے اس گھرانے کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا پھر خیال آیا کہ ایسے لوگ تو یہاں بہت زیادہ ہیں، ان کی لسٹ دیکھی تو مزید دکھ ہوا۔ ہمارے ہاں فی کس آمدن سے لیکر فی کس دولت تک سب انتہائی کم اور ایورج عوام کا معیار زندگی بہت لو ہے۔
صرف دس فیصد لوگ ایسے ہیں جو اچھی سہولیات رکھتے ہیں اور وہی دس فیصد یہاں اصل فیصلہ سازی کرتے ہیں، باقی بس نعرے لگاتے ہیں یا انٹرنیٹ پہ ان دس فیصد کی خاطر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ خیر کمنٹس میں بحث کو سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کی طرف لے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کیپٹلسٹ ریاستوں کی صورتحال سوشلسٹ اور کیمونسٹ ریاستوں سے ننانوے فیصد بہتر اور سہولیات ستر فیصد اچھی ہیں۔
کیمونسٹ اور سوشلسٹ ریاستوں میں شخصی استحصال عام ہے اور آزادی نا ہونے کے برابر ہے۔ دعا ہے کہ ہم تو نہیں مگر ہمارے بچے ایک بہتر دنیا میں جی سکیں۔ جہاں ان کو پہلے سے کم چیلنجز کا سامنا ہو۔ آمین۔