Game Chalti Rahegi
گیم چلتی رہے گی
میں کچھ ہفتے پہلے خان صاحب کے حق میں اس لئے بولا تھا کیونکہ میں جمہوریت کا تسلسل چاہنے والا انسان ہوں۔ بار بار حکومتیں گرتی رہیں تو یہاں جمہوریت میچور ہی نہیں ہو سکتی۔ تب خان صاحب کے حق میں بات کرنے کی محض یہی وجہ تھی۔ پھر جب متحدہ اپوزیشن کا دورہ روس پر پینترا دیکھا تو میں سراسر اپوزیشن کے خلاف ہو گیا کیونکہ یہاں سے دال میں کالا نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔
میں پبلک میں حد سے زیادہ اے پولیٹیکل رہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر حق کو حق کہنے کی تربیت ہے سو جہاں لگے حق کو حق کہہ دیتا ہوں۔ سو تھوڑی سیاسی باتیں کی جن پر بہت سے دوستوں کو تحفظات ہوئے مگر کسی کے تحفظات ہمیں اپنی رائے رکھنے سے نہیں روک سکتے۔ ہر کسی کی رائے کا احترام ضروری ہے۔ اب خان صاحب نے خط والی بات کی تو پہلے دن تو سب نے ٹھٹھہ اڑایا کہ کونسا خط؟ کیسا خط؟ یہ تو خان صاحب نے لمبی چھوڑی ہے۔ بڑے بڑے تجزیہ نگار خان صاحب کو اہمیت دینے کی بجائے کہنے لگے کہ خان صاحب نے حسب سابق کوئی لمبی چھوڑ دی ہے۔
مگرآج شام سے وہ سب تجزیہ نگار خان صاحب پہ اس بات پہ تنقید کر رہے ہیں کہ خط کی بات لیک کرکے خان صاحب ملک کے لئے سیکیورٹی تھریٹ بن گئے ہیں۔ اور اب سارا ہجوم بدل کر خان صاحب کو ملک کے لئے تھریٹ ثابت کرنے پہ لگ گیا ہے کہ یہ بات پبلک میں نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مطلب یہ لوگ اندر کھاتے مان رہے ہیں کہ متحدہ اپوزیشن کسی کی چابی پہ چل رہی ہے مگر ان کو خان سے بغض ہے تو وہ ملکی مفاد کو بھی سائیڈ پہ رکھ کر پھر بھی اس کو اتروانا چاہتے ہیں۔
ایک بات کنفرم ہے میرے جیسے عام لوگ چاہے اس شخص کے حق میں ہوں یا نا ہوں، لوگ چاہے خان کے خط والے نکتے کو محض ایک ہوائی سمجھنے سے یوٹرن لیکر اب سیکیورٹی تھریٹ سمجھنے پہ آ جائیں یہ شخص ملکی مفاد پہ کمپرومائز نہیں کرنے والا۔ خدا ان کو استقامت دیں اور یوں ہی ڈٹ کر ملک کا مقدمہ لڑنے کی توفیق دیں نا کہ ایک پلیٹ آلو گوشت کے بدلے ملک کا امیج خراب کرنے والوں کو جیتنے دیں۔
اب بدلتے رنگ دیکھیں وہ جو کل تک خط والی بات افسانہ سمجھ رہے تھے آج رو رہے ہیں کہ یہ بات ملکی سلامتی کے لئے ٹھیک نہیں۔ لیکن ان لوگوں کا مسئلہ ملکی سلامتی کبھی رہا ہی نہیں۔ خیر۔ یہ گیم چلتی رہے گی۔