Elon Musk Ka Inkeshaf
ایلون مسک کا انکشاف
انسان اس زمین کی مخلوق نہیں بلکہ ایک ایلین ہے! ایلون مسک کا دھماکہ خیز انکشاف انسانی جسم کے کئی خدوخال ایسے ہیں جن کو دیکھ کر اکثر اوقات ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس سیارے سے تعلق نہیں رکھتے- پچھلے دس سالوں سے ہمیں مریخ سے متواتر ایسے ثبوت مل رہے ہیں کہ انسان واقعی زمین کی مخلوق نہیں ہے۔ یہ بات ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک نے اپنے آج رات ایک انٹرویو میں کہی۔ اس انٹریو میں انہوں نے کچھ ایسے حیرت انگیز انکشافات کیے جن کی روشنی میں روایتی ارتقائی مفروضے غلط ثابت ہو جانے کا امکان ہے-
آپ بھی کہیں گے کہ آج ضیغم یوٹرن کیوں لے رہا ہے؟ وہ اس لیے کہ اب اس دعوے کے باقاعدہ سائنسی ثبوت مل چکے ہیں - اس لئے باقی تحریر پڑھیں اور سر دھنیں۔ ایک مدت سے نظریہ ارتقاء کے مخالفین ارتقاء کے دلائل کو تواتر سے رد کرتے آرہے ہیں - لیکن چونکہ یہ رد سائنسی سے زیادہ عقلی دلائل پہ مشتمل ہوتا تھا اس لئے نام نہاد ارتقائی سائنسدان (جن کے دعووں کی واحد دلیل وہ ڈھانچے ہیں جن کو کچھ مخصوص لیبارٹریوں نے اپنے ایجنڈے کی خاطر بنایا ہوا ہے-
یہ حقیقت بھی اب ثابت ہو چکی ہے کہ یہ ڈھانچے محض فراڈ ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں) ابھی تک ان اعتراضات کو رد کرتے آئے ہیں۔ ہم جدید سائنسی دلائل سے پہلے کچھ عقلی دلائل دیکھ لیتے ہیں جو کہ انسان کو سراسر اس زمین کا باشندہ ثابت ہی نہیں کرتے۔ سب سے پہلے اگر ہم انسانی جسم کی ساخت کی بات کریں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ انسانی جسم کی ساخت اس زمین کے ماحول سے ہرگز نہیں رکھتی۔ انسانی جسم کچھ ایسا ہے کہ اگر ہم چار منٹ بھی کھڑا رہ لیں تو تھک جاتے ہیں۔
محققین بہت عرصہ تک اس حقیقت کو رد کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ اس تھکاوٹ کی وجہ محض کمزوری ہو سکتی ہے- مگر ٹیسلا کمپنی کے سائنسدانوں نے اس بات کا رد سائنس سے ہی کردیا ہے۔ بقول ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کے، انسانی جسم میں تھکاوٹ جیسا مظہر آپ کسی اور جاندا ر میں نہیں دیکھ سکتے- یہ تھکاؤٹ انسان کو نہ تو یہاں کا چھوڑتی ہے اور نہ ہی وہاں کا، خود میں بھی اس مشکل کا شکار رہا مگر اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک دن ہم نے مریخ کی کشش ثقل کی شرح کو ڈھونڈ لیا۔
جب ٹیسلا کے سائنسدانوں نے مریخ کی کشش ثقل کا سراغ لگایا تو پتا چلا کہ یہ زمین کی کشش ثقل سے کافی کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مریخ کی کشش ثقل کی شرح زمین سے تین گنا کم ہے۔ اتنی کم کشش ثقل میں گاڑیوں کو چلانے کے لئے کیسا ماحول ہونا چاہیے اسے دریافت کرنے کے لئے ایلون مسک خود مریخ پر گئے اور مریخ کی کشش ثقل میں گاڑی چلا کر دیکھی-
اس تجربے سے یہ حیرت ناک انکشاف انکشاف ہوا کہ اتنی کم کشش ثقل میں وہ کئی گھنٹے کامیابی کے ساتھ گاڑی چلاتے رہے اور یوں تروتازہ تھے جیسے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ زمین پر ایلون مسک چند منٹ بھی گاڑی چلائیں تو شدید تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس دریافت کی تجرباتی تصدیق کے لئے ایلون مسک اور ان کی ٹیم نے مریخ پر مزید تجربات کئے مگر ان نتائج کو خفیہ رکھا گیا تاکہ مکمل ریسرچ کے بعد ہے اپنی اس دریافت کو شائع کریں -
انہیں خوف تھا کہ مکمل ڈیٹا کی غیر موجودگی میں عوام اور دوسرے سائنس دان اتنے حیرتناک انکشاف کو کہیں رد نہ کر دیں۔ ان تجربات کے لیے ایلون مسک نے کچھ سال پہلے اپنی Tesla Roadster گاڑی خلاء میں بھیجی تھی- اب ٹیسلا نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس کار میں ایلون مسک اور ان کی پوری ٹیم مریخ پر گئی تھی اور اسی کار کو مریخ کی سطح پر ڈرائیو کرنے سے یہ حیرت ناک انکشاف ہوا تھا کہ انسانی جسم مریخ کی کم کشش ثقل کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا- زمین پر انسان اس لیے جلد تھک جاتا ہے اور اسے نیند آ جاتی ہے کیونکہ زمین کی کشش ثقل بہت زیادہ ہے
ایلون مسک نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ وہ ابھی اس حیرت ناک دریافت کو مزید کچھ سال چھپانے کا منصوبہ رکھتے تھے لیکن پچھلے ماہ ناسا کے مریخ پر بھیجے گئے مشن کو مریخ پر انسانی زندگی کے کچھ ایسے ناقابل تردید شواہد ملے جن کا رد جدید سائنس کے لیے ممکن نہیں ہے-ٓ اس دریافت سے ارتقاء کی نام نہاد سائنسی تھیوری کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے- ناسا اس نئی دریافت کا اعلان اگلے ہفتے کرنے والا ہے جس وجہ سے ایلون مسک نے آج کے انٹرویو میں اپنی خفیہ تحقیق کا راز بھی افشا کر دیا ہے
ناسا کو مریخ پر انسانی زندگی کے بارے میں ملنے والے شواہد نیچے تصاویر میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں - ان میں ایک انسانی مادہ کا ڈھانچہ اور کچھ انسانی ہڈیاں شامل ہیں - کیوریاسٹی روور کے مطابق جب ان ہڈیوں کے سیمپلز کا اس روبوٹ کے اندر موجود چھوٹی لیبارٹری میں مشاہدہ کیا گیا تو ان میں انسانی ڈی این اے کے ناقابل تردید شواہد ملے۔ یاد رہے کہ ڈی این اے کسی بھی نوع کی بنیادی حیاتیاتی معلومات رکھتا ہے۔ ان ہڈیوں کی ساخت اور ڈی این اے کے کے تجزیے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان اس زمین پر ایلین ہے اور دراصل مریخ سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایلون مسک نے اس ضمین میں معروف فزسسٹ جان سنو کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے فزکس اور خصوصاً سیاروں کی تاریخ پر خاصہ کام کیا ہے۔
جان سنو نے ایک عرصہ پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مریخ کی تباہی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ شدید زلزلے اور ایٹمی جنگیں تھیں - اس دعوے کے بعد سائنسی کمیونیٹی نے جان سنو پر پاگل پن کا الزام لگا کر انہیں سائنسی اکیڈمی سے خارج کر دیا تھا- لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مریخ پر موجود انسان بے راہروی کا شکار ہو چکا تھا اور وہاں کے کئی ملکوں کے لالچی لیڈر پورے مریخ پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے-
ان منصوبوں کے نتیجے میں مریخ کے ملکوں میں عالمی جنگ چھڑ گئی جس میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال شروع ہو گیآ- کچھ پارساء اور عقل مند مریخیوں نے یہ بھانپ لیا کہ جوہری جنگ کا لازمی نتیجہ مریخ سے انسانوں کا مکمل خاتمہ ہے چنانچہ انہوں نے ایک خفیہ مشن کے ذریعے اپنا ڈی این اے زمین پہ اتار دیا اور پھر اسی ڈی این اے سے زمین پر انسانی نسل آگے بڑھنے لگی۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم انسانوں کے ڈی این اے کا جینیاتی مطالعہ کریں تو انسانی ڈی این اے دو لاکھ سال پہلے mitochondrial EVE یعنی مائٹوکانڈریل حوا سے جا ملتا ہے جو مریخ پر بسنے والی ایک خاتون تھیں۔ سائنس دان کئی دہائیوں سے یہ جانتے تھے کہ تمام انسانوں کا ڈی این اے ایک مشترکہ خاتون جد سے آیا ہے- اس کے باوجود سائنس دان انسان کو ایلین ماننے سے انکار کرتے رہے اور ارتقاء کے جھوٹے نظریے کو زبردستی لوگوں پر ٹھونستے رہے۔
ایلون مسک کا یہ تازہ ترین انٹرویو اس وقت یوٹیوب پہ بھی دستیاب ہے جس میں وہ اس حقیقت کا انکشاف کر رہے ہیں - اگر آپ وہ انٹرویو دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ اس لنک پہ جا کر دیکھ سکتے ہیں۔