Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Dubai

Dubai

دوبئی

میں نے پاکستان سے نکل کر اپنی زندگی کا جو پہلا دوسرا ملک دیکھا ہے وہ یو اے ای کی ریاست دوبئی ہے۔ ہر بندہ اپنے کینوس سے چیزیں دیکھنے کا عادی ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ دوبئی ہزار بار دیکھ چکے ہوں اور اس نظر سے آپ نے دیکھا ہی نا ہو۔

دوبئی میں جو پہلی چیز دیکھی وہ یہ تھی کہ لوگ ایک عجیب سکون سے چل پھر رہے ہیں کسی کو نا جلدی ہے اور نا ہی تیزی، دوبئی میٹرو تو اپنی لاہور جیسی ہی ہے، لیکن اس میٹرو پر ہر ایک میٹر پر آپ کو دس ارب سے اوپر ڈالر کی مالیت کی عمارت نظر آئے گی اور ان عمارتوں کی ملکیت ہمارے جیسے انسان ہی رکھتے ہیں اور ان انسانوں میں سے ہر کسی کی نیٹ ورتھ ایک ملین ڈالر سے تو کم نہیں ہو سکتی ہے۔

وہ نظریہ کہ زیادہ پیسہ کسی کا حق مار کر ہی کمایا جا سکتا ہے غلط نکلتا ہے کیونکہ ہر مربع انچ پر اربوں کی عمارت کسی کا حق مار کر نہیں بلکہ دیانت سے بنائی گئی ہے۔

وہیں پر پاکستان کے تازہ اور گزشتہ حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا تو یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ برے معاشی حالات پوری دنیا پر چھائے ہیں یہ بات اتنی بھی درست نہیں ہے۔ ایک ہنستا بستا ملک ڈیڑھ سال میں اپنے جوان مردوں کو رلانے پر مجبور کر گیا جبکہ یہاں لوگ دھڑا دھڑ کچھ نا کچھ خرید رہے ہیں اور مجارٹی کی ایک گھنٹے کی شاپنگ ہمارے ملک میں عام شخص کی دو سال کی گروسری سے اوپر تھی۔

مزے کی بات یہ ہوئی کہ اکیلے گھومنے کی بات کی وجہ سے مال آف ایمریٹس میں گم ہوگیا تھا۔ اتنا بڑا مال کہ دو گھنٹے ایگزٹ دیکھنے پہ لگ گئے اور ایگزٹ ملا ہی نہیں وہیں پر لوگ تھے کہ ختم نہیں ہو رہے تھے مگر نا کہیں رش تھا نا ہی ہنگامہ بلکہ سب آرام و سکون سے اپنے آپ کو انجوائے کر رہے تھے۔

اسی طرح دوبئی والوں کے وظیفے پر پلنے والے اکثر یہاں پابندیاں لگانے اور بے حیائی پر وظیفے دیتے نظر آتے ہیں جبکہ دوبئی میں لوگوں کی مجارٹی کو دیکھ کر اپنے دل میں موجود یہ ہائپوتھیسس کہ بے حیائی صرف اسی کو نظر آتی ہے جس نے عورتوں کی ٹانگیں کیسے نا کیسے سکین کرنی ہیں مزید پختہ ہوگیا۔

کیونکہ وہاں کوئی مدد کرنیوالا انصار کسی کے لباس کو انچی ٹیپ سے ماپنے کی ہمت نہیں رکھ رہا تھا بلکہ سب کو معلوم تھا کہ ہر انسان کی ٹانگیں ہوتی ہیں جسم ہوتا ہے اور لباس اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔

اسی طرح دوبئی سے جاتے وقت میرے بیگ میں بہت کچھ کھانے والا بھی تھا اور پاکستان میں سے کھانے والا سامان لیجانا جوئے شیر لیجانے کے مترادف تھا اور اسی بیہودہ چیکنگ کی وجہ سے میں اپنی ہوڈی سامان میں کھو آیا تھا، جبکہ یہاں کے سیکورٹی اداروں کو کسی پر بھی اتنا شک نہیں تھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ مجھے اپنے گھر داخل ہوتے وقت زیادہ سیکیورٹی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جبکہ یہاں میرے ہاتھ میں موجود بورڈنگ پاس نے بس مشین پر سکین ہونا تھا اور میں نے خود کو خود ہی ائرپورٹ میں داخل کر لینا تھا۔

مطلب اگر سیکیورٹی والے انسکیور ہونے کی بجائے اور پیٹ بھرنے کی بجائے اپنے کام کریں تو ان کو لمبے چیک کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔

اوورآل میرے لئے یوں نئی جگہیں گھومنا کافی معلومات افزاء اور مزے کا پیریڈ لگ رہا ہے۔ ہمارا ملک بھی بہت بیسٹ ہے لیکن مینیجر کی نیت اگر دوبئی کے مینیجر والی ہو جائے تو ہمارا ملک بہت آگے جا سکتا ہے۔

Check Also

Falasteenion Ko Taleem Bacha Rahi Hai (2)

By Wusat Ullah Khan