Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Aurat March

Aurat March

عورت مارچ

اگر کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ آزادی کیا ہے تو وہ کہے گا روٹی ملنا آزادی ہے۔ آپ یہ سوال کسی لنگڑے سے پوچھیں تو وہ دوڑنے کو آزادی بولے گا اور وہیں پر آپ کسی غریب سے پوچھیں تو وہ پیسہ کمانے کو آزادی بولے گا۔ آزادی کیا ہے؟ اس کی تعریف کافی جنرلائزڈ ہے۔ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہے، وہ اسی کے حصول کو آزادی سے تعبیر کرے گا۔ عورت مارچ پاکستان میں کچھ سالوں سے مقبول ہے، یہاں عورت کی آزادی کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔

مگر عورت کی آزادی سے یہاں کیا مراد ہے؟ یہاں بینر اٹھائے لوگوں کا ایجنڈا پڑھیں تو پتا لگتا ہے کہ عورت کی آزادی سے مراد اس کا جسم آزاد ہونا ہے، کسی کے مطابق اس کا اپنے فیصلے خود کرنا آزادی ہے اور کسی کے مطابق نوکری کرنا آزادی ہے۔ غرض یکہ، جس کو جس چیز کی بھوک ہے، وہ اسی کو آزادی سمجھتا ہے۔ ایسے میں ہو سکتا ہے، آپ کو جس چیز کی بھوک ہو آپ اس کو اپنی آزادی سمجھ رہے ہوں وہیں پر کچھ چیزیں ایسی ہیں۔

جن کو ہم آزادی کی آڑ میں کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور ان کو چھوڑنا، جہاں اخلاقی طور پر غلط ہے وہیں پر بائیولوجیکلی بھی وہ بات غلط ہے۔ ہمارے سماج کی ایک بڑی پرابلم روزگار ہے اور اسی لئے ہمارے تقریبا99% مسائل وہ ہیں۔ جو روزگار سے جڑے ہیں، عورت کی آزادی کی زیادہ تر تشریحات ہماری انہی روزگار کی ضروریات سے جڑی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ، اس بات کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ عورت مرد پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے فیصلے لینے میں آزاد ہے۔

کیونکہ وہ عورت ہے وہیں پر اگر سوال کیا جائے کہ اگر کوئی مرد ایسا کرے اور اپنی عورت سے وہ مشورہ نا کرے تو؟ پھر جواب آتا ہے کہ ایسا کر کے آپ اس کو opress کر رہے ہیں یا پھر دبا رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عورت جو اپنے قریبی مردوں پر انحصار نہیں کرتی تو کیا اس کی یہ حرکت اپنے مرد کو دبانے کے زمرے میں نہیں آئے گی؟ ایک اور بات جو پروموٹ کی جاتی ہے کہ عورت کا جسم اس کی مرضی ہے۔

اگر کسی بچے سے کہیں تو وہ اس بات کو لٹرل معنوں میں لیکر درست کہے گا اور یہ بات ہے بھی درست، مگر وہیں پر اس بات کی آڑ میں ایک سے زائد جنسی تعلقات رکھنے کی راہ ہموار کرنے کو نارملائز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ انسانی سماجی اقدار کے منافی ہے۔ آپ ایسی کئی خواتین دیکھیں گے، جو اپنی ارلی ٹوئنٹیز میں اپنی مرضی کے افئیرز رکھنے کے بعد اس چیز کی ڈیمانڈ کرتی ہیں کہ ان کو ایک وفاشعار مرد ملے۔ اب یہ غلط ہے یا درست آپ فیصلہ کریں۔

یہاں چونکہ ہمارے مسائل غربت سے جڑے ہیں تو بہت سی چیزیں کنفیوژ ہو کر دیکھی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک عورت کا مکمل طور پر آزاد ہو کر خاندان شروع کرنے کی فکر نا کرنا یا پھر تیس سال کی عمر کے بعد ایسا کرنا ہے۔ جبکہ یہ انسانی نسل کی بقا کے خلاف ہے۔ ایک عورت جس کی شادی تیس سال کی عمر کے جتنا عرصہ بعد ہوتی ہے۔ اس کے ہاں ابنارمل بچوں کی پیدائش اتنی زیادہ ہونے کے چانسز رکھتی ہے۔

اور یہ آنیوالی اولاد پر ظلم ہے کہ آپ اپنی سوکالڈ آزادی کی خاطر کسی کی پوری زندگی اپاہج پن میں گزار دیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ میرے نزدیک آزادی کیا ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک عورت کی آزادی یہ ہے کہ اس کو سب کرنے کی اجازت ہو، مگر اس کے ساتھ اس کو متوقع نتائج بھی بتانے چاہیں۔ وہیں پر اگر خاندان بنانا ہے تو عورت کو خود غرض بن کر جاب کرنے کی بجائے خود کو بچوں میں انویسٹ کرنا چاہیے۔

اور وہیں پر اپنے پارٹنر کے خیالات اور پسند کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں آزادی کا مطلب دو الگ گروہوں میں رہنا ہے جس میں ایک گروہ مرد کا دوسرا عورت کا ہو، جبکہ ایسی باتیں ایک صحتمند ماحول کو جنم نہیں لیتی ہیں، بلکہ ایسی باتیں کرنے والوں کی گروتھ بھی کسی طرح کی محرومی میں ہوئی ہوتی ہے۔ سو الگ گروہوں کی بجائے اکھٹے رہ کر باہمی گفتگو سے مسائل اور ترجیحات ڈسکس کرنی چاہیں۔

کہیں بھی نہیں لکھا کہ عورت کی آزادی اس کا نوکری کرنا ہے۔ بلکہ عورت کے نوکری کو نارملائز تب کیا گیا، جب مغرب غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا چکا تھا، وہیں سے ہر عورت کے جاب کرنے کی تحریک شروع ہوئی، لیکن اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عورت جاب نا کرے، بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جاب کو اپنی زندگی نا سمجھے، کیونکہ جاب کرنا آزادی نہیں بلکہ ایک طرح کی paid slavery ہے۔ جس میں آپ کسی سے اجرت لیکر اس کی غلامی کرتے ہیں۔

اگر آپ عورت ہیں اور آپ اپنے گھر میں سکون کو کمپرومائز کرکے اس تنخواہ والی غلامی کی خاطر لڑ رہی ہیں تو آپ سے زیادہ احمق اور مڈل کلاس سوچ کوئی نہیں رکھ سکتا وہیں پر اگر کسی مرد کو ایسی چوائس ملے تو وہ گھر سکون کرنا ہی پسند کرے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ نوکری کرکے آپ آزاد ہیں، ایک احمقوں کی جنت میں جینے کے مترادف ہے۔ وہیں پر ایک سے زائد جنسی تعلقات کو آزادی سمجھنا تو ہے ہی نری حماقت، ہاں اگر کسی کو ایسا شوق ہے تو وہ پورا کر لینا۔

اس کی چوائس ہے، مگر عورت ذات کی آزادی کو جنسی تعلقات سے جوڑنا نہایت ہی sexualized way of thinking ہے جس میں آپ اپنی زندگی کو سماجی ضروریات سے مبرا کرکے ایک سروس پروائڈر کے طور پر گزارنے کو آئیڈیلائز کریں۔ ہاں آزادی یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے سب فیصلے کرنے کی طاقت آپ کے پاس ہو اور آپ سے جڑا ہر شخص آپ سے مشورہ لیکر آگے چلنا پسند کرتا ہو۔

اگر کسی گھر میں مرد کو بھی یہ قوت حاصل نہیں تو دراصل اس کو بھی ایک عدد مرد مارچ کی ضرورت ہے۔ ورنہ نوکریاں کرنا یا پھر کسی اور جسمانی بھوک کو آزادی کہنا یا عورت کو کم تر سمجھنا یا مرد کو کم تر سمجھنا انتہائی نیچ سوچ کی نشانی ہے۔ انسان کی اصل آزادی اس کے آزادنہ اختیار کی ہے۔ وہیں پر اگر ہم بات کریں اختیار کی تو عورت کی بجائے مردوں کی مجارٹی اس سے محروم ہے اور وہ ایک عدد مرد مارچ مانگتے ہیں۔ تو کیوں نا سب عورتیں اکھٹی ہو کر مرد کو یہ آزادی دیں اور پھر ایک صحتمند سماج کا آغاز کریں؟

Check Also

Asad Muhammad Khan

By Rauf Klasra