Apni Hi Jurwan Behan, Larki Aur Hare Khoon Wala Shakhs
اپنی ہی جڑواں بہن ،لڑکی اور ہرے خون والا شخص
یہ دُنیا اپنے اندر اتنے زیادہ راز رکھتی ہے کہ ہم اُن میں سے ایک فیصد تک کو بھی جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ایک کہکشاں میں ارب ہا ستارے اور سیارے موجود ہیں۔ اب ان ارب ہا اجرامِ فلکی پہ کیا کیا موجود ہے؟ یہ راز ہم کبھی بھی مکمل طور پہ نہیں جان سکتے۔
اسی طرح ہمارا جسم اربوں خلیوں سے بنا ہوا ہے۔ لیکن ہر خلئیے کے پاس ایک جیسا ڈی این اے موجود ہے۔ ہماری آنکھ اور معدے دونوں کے پاس ایک جیسا ڈی این اے موجود ہے لیکن اس ڈی این اے کا اظہار مختلف جگہوں پہ مختلف طرح سے ہوا ہے۔ اسی لئے ہمارا معدہ اسی ڈی این اے کےساتھ تیزاب خارج کرتا ہے تو وہیں، یہی ڈی این اے آنکھوں میں آنسو خارج کروا رہا ہے۔ یہ مظہر ڈی این اے کے ترجمہ (ٹرانسلیشن) کے عمل کے دوران ہوتا ہے جس میں ہر سیل میں موجود جین (ڈی این اے کا چھوٹا سا ٹکڑا) صرف اُسی شکل میں ڈھلتا ہے جس شکل کے خامرے وہاں پہ موجود ہوتے ہیں۔
جیسا کہ معدے کے تیزاب خارج کرنے والے خلئے ہیں۔ خیر یہ پیچیدہ عمل ایک علیحدہ تحریر کا متقاضی ہے۔ پہلے تو ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ ہمارے جسم میں صرف ایک ہی طرح کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے لیکن ایک ایسی بیماری بھی کرہ ارض پہ موجود ہے جس میں ایک شخص کے جسم میں دو طرح کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے۔ دو طرح کے ڈی این اےکے اس اظہار کو ہم کائی مریزم کے نام سے بلاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تیس میں سے ایک شخص جڑواں بہن یا بھائی رکھتا ہے لیکن یہ حالت کافی عجیب ہے، اس میں متعلقہ شخص اپنا ہی جڑواں بھائی، بہن ہوتا ہے۔
اس بیماری کے ابھی تک صرف سو مریض ہی سامنے آئے ہیں۔ یہ مظہر کیسے رونما ہوتا ہے؟ یہ کافی حیران کن پہلو ہے۔ یونانی فلسفہ ایسے کرداروں سے بھرا ہوا ہے جس میں کائی میرا نامی مخلوق کا ذکر موجود ہے، ایسے کردار دو مختلف جانوروں کا امتزاج ہیں۔ لیکن حقیقی زندگی میں یہ وہ جاندار ہیں جو اپنے جسم میں دو طرح کے ڈی این اے رکھتے ہیں۔ یہ مظہر تب رونما ہوتا ہے جب کسی حاملہ کے اپنے خلیے بچے کے خلیوں سے مل جاتے ہیں۔ یہ حالت مائیکر و کائی مریزم کہلاتی ہے۔
جبکہ ایک اور مظہر جس کا نام ٹوئن کائی مریزم ہے، اس میں ماں کے پیٹ میں موجود جڑواں بچوں میں سے ایک بچہ مر جاتا ہے جبکہ دوسرا بچنے والا بچہ اپنے جڑواں کے کچھ خلیے اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ جبکہ تیسری قسم ٹیٹرا گیمی ٹِک کائی میریزم ہے جس میں دو سپرم ایک انڈے میں سمو جاتے ہیں اور نتیجتاََ ہونے والا بچہ دو طرح کا ڈی این اے رکھتا ہے۔ جبکہ چوتھی قسم میں ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں مصنوعی طور پہ یہ حالت دیکھنے میں آئی ہے۔ جسے آرٹی فیشل کائی میریزم کہا گیا ہے۔
یہ حالت کافی دل چسپ سی حالت ہے کیونکہ اس حالت میں بچے کی آنکھوں میں سے ایک آنکھ کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے اور دوسری آنکھ کا رنگ مختلف۔ اسی طرح آدھے جسم کا رنگ اور، اور آدھے کا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بچہ مرد اور عورت دونوں کے جنسی اعضاء بیک وقت اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان تمام پہلوؤں سے بھی زیادہ حیران کُن پہلو یہ بھی ہے کہ بچے کے خون کے خلیے تک مختلف ہو سکتے ہیں۔ خون کے بارے میں مزے کا پہلو یہ ہے کہ کائی مرز کے خون کے گروپ دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔
ایک خاتون کائی مر کے اندر اکسٹھ فیصد او بلڈ گروپ جبکہ انتالیس فیصد اے بلڈ گروپ بھی دیکھا گیا ہے۔ خون کے گروپ میں یہ تغیر مریض کو بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے کیونکہ دو طرح کاخون ہونے کے نتیجے میں مدافعتی نظام کافی کمزور ہو جاتا ہے جو کہ بیماریوں کو دعوت دینے والی بات ہی ہے۔ اسی طرح ایک ایسا مریض جو کسی دوسرے شخص کی ہڈی کا گودہ یا پھر بون میرو ٹرانسپلانٹ کرواتا ہے تو امکان ہے کہ اُس شخص میں جو خون پیدا ہوگا اُس میں اس ڈونر کا گروپ بھی شامل ہوگا۔
گلوکارہ ٹیلر موھل بھی ایک کائی میرک ہیں اور ان کی قسم ٹوئن کائی میری کی ہے جس میں انہوں نے اپنی ماں کی کوکھ میں اپنے جڑواں کے خلیوں کو جذب کر لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں انکی آدھی جلد سفید اور آدھی جلد سُرخ رنگت کی بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک کیس میں ایک شخص اپنے بچے کی ولدیت ہی ثابت نا کر سکا کیونکہ اُسکے بچے کا آدھا ڈی این اے اپنے جڑواں سے حاصل شُدہ تھا۔ اسی طرح ایک ماں اسی طرح کے ٹیسٹ میں ناکام ہو گئی تھی۔ اس حالت کو درست کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔
جن مریضوں کے دو خون کے گروپ ہوتے ہیں، جیسا کہ گلوکارہ ٹیلر موھل کے ہیں اُن کا دفاعی نظام خاصہ کمزور ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان کو بیماریاں لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اےہمارے وجود کی عمارت کا بنیادی عنصر ہے بس سمجھیں کہ ایک مٹی کا گھروندا ہے اگر ہم اس گھر سے مٹی نکال دیں تو گھر کا وجود مٹ جاتا ہے، بالکل اسی طرح یہ ڈی این اے ہے جو ہمیں ہمارا وجود دیتا ہے۔ اور اس میں ذرا سی گڑبڑ ہمارے وجود کی عمارت کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہے۔ جیسا کہ کینسر ہے یا دوسری سینکڑوں بیماریاں، جیسا کہ ہرا خون۔ جی ہاں ہرے خون والا مریض بھی سامنے آیا تھا۔
ہمارے خون میں ہیمو گلوبن موجود ہوتی ہے جس کا کام آکسیجن کو جسم کے ہر حصے تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ ہیموگلوبن اپنے مرکزے میں آئرن کا ایٹم رکھتی ہے، جبکہ اسی ہیموگلوبن جیسی ساخت پودوں میں موجود کلوروفل کی ہوتی ہے جس کے مرکزے میں صرف آئرن ایٹم نہیں ہوتا بلکہ اُس میں میگنیشیم کا ایٹم ہوتا ہے۔ باقی کی ساخت بالکل وہی ہوتی ہے۔ یہ سارا فرق ڈی این اے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ جو ہمارے بلڈ سیلز میں ایسے عناصر بناتا ہے جن کے مرکزے میں آئرن ہوتا ہے جبکہ پودوں میں یہ میگنیشیم بنواتا ہے۔
سنہ دو ہزار سات میں کینیڈا میں ایک ایسا مریض سامنے آیا جس کا خون ہرے رنگ کا تھا، ڈاکٹر کافی حیران ہوئے بعد میں جب اس خون کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس شخص کے خون میں آئرن کی بجائے سلفر کا ایٹم موجود تھا اور یہی سلفر اُس کے خون کو سُرخ کی بجائے ہرا رنگ دے رہا تھا۔ مزید تحقیق پہ پتا چلا کہ وہ شخص مائیگرین کی ایک خاص دوائی بہت زیادہ مقدار میں لے رہا تھا جس کے نتیجے میں اُس دوائی میں موجود سلفر نے آہستہ آہستہ اُسکے خون میں جگہ بنانی شروع کردی تھی اور اب اُس کا خون ہرا ہو گیا تھا، بعد میں ڈاکٹروں نے اُسے وہ والی دوائی لینے سے روک دیا اور پانچ ہفتوں بعد دوبارہ تجزئیے پہ پتا چلا کہ اُس کا خون نارمل ہو چُکا ہے۔
یہ ساخت کس طرح بدلی؟ اس کے جاننے کے لئے ایک سادہ سی مثال دوں گا کہ ہیموگلوبن ایک تالا ہے اور آئرن اس تالے کی چابی ہے جبکہ سلفربھی آئرن جتنی لمبائی رکھنے والی چابی ہے اور چونکہ خون کے کمرے میں آئرن کی بجائے سلفر کی چابیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی ان زیادہ تعداد کی چابیوں کی وجہ سے آئرن پسِ پُشت چلی گئی تھی جبکہ سلفر ہیمو گلوبن کے تالے میں لگ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے پورے ہیموگلوبن کی ساخت سلفو ہیمو گلوبن میں بدل گئی تھی۔
یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ساخت میں ذرا سا فرق ہی ہمیں ارتقاء کے ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ ٹاٹا باکس بائنڈنگ نامی پروٹین تمام جانداروں میں پائی جاتی ہے جو کہ ارتقاء کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے۔ خیر ارتقاء ایک الگ موضوع ہے، لیکن یہی ہیموگلوبن والی ساخت پودوں میں بھی پائی جاتی ہے جس کے مرکزے میں صرف آئرن ایٹم نہیں ہوتا بلکہ اُس میں میگنیشیم کا ایٹم ہوتا ہے۔ جو اُن کو سورج کی روشنی سے آکسیجن بنانے میں مدد دیتا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں میوٹیشنز کہلاتی ہیں۔ اور عموما ََبیماریاں انہی تغیرات کی وجہ سے پھیلا کرتی ہیں۔ یہ تغیر کیسے ہوتے ہیں ؟ ان کا ذکر پھر کبھی سہی، لیکن یہی تغیر ہمیں بیماریوں سے بچاتے بھی ہیں اور بیماریوں کا شکار بھی بناتے ہیں۔ یہ رحمت بھی ہیں اور زحمت بھی، یہ ہمیں روپ بھی دیتی ہیں اور بہروپ بھی۔