Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Take It Easy

Take It Easy

ٹیک اِٹ اِیزی

تقسیم کے وقت جب چیف انجنئیر لاہور سے پوچھا گیاکہ آزادی کے بعد انڈیا سے آنے والی نہروں کا پانی رُکے گا تو نہیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ چیف انجینیئر دہلی مسٹر شرما میرے بیج میٹ ہیں اور اپنے بھائی ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اور اب یہ صورت حال ہے کہ انڈیا نے دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی بیراج بنا کر شہرِ لاہور کی رونقوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اور ہزاروں سال پرانے اس تاریخی ثقافتی شہر کو پہلی دفعہ اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

1947 میں پانی کا نظام جان بوجھ کر ایسے تقسیم ہوا کہ نہروں کے ہیڈ ورکس ہندوستان میں رہ گئے اور نہریں پاکستانی علاقے میں آ گئیں۔ حالات کو جوں کا توں رکھنے کا سنہ 47 والا معاہدہ ختم ہوتے ہی یکم اپریل 1948 کو بھارت نے پاکستان میں جانے والی نہروں کا پانی روکنا شروع کر دیا۔

تقسیم کے پہلے سال میں ہی نہری پانی کو روکنے کے واقعہ نے تصوراتی سمجھی جانے والی ریڈ کلف لائن کو ایک قدرتی اور قومی مفہوم دے کر تقسیم کو پختہ کردیا۔

4 مئی 1948 کے بین الملکی معاہدے کے تحت ہندوستان نے پیسے کے بدلے نہروں میں پانی کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم یہ بھی ایک عارضی حل تھا کیوں کہ اس کے بعد کی بات چیت کے دوران کوئی بھی فریق سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھا۔

اسی دوران 1951 میں ورلڈ بینک کے سربراہ یوجین بلیک نے بینک کے تعاون سے ہندوستان اور پاکستان کو مشترکہ طور پر دریائے سندھ کے نظام کی ترقی اور انتظام کے لئے کوششوں کا آغاز کیا۔ دونوں ملکوں کے انجنئیرز کا ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا، لیکن دونوں ملکوں کے سیاسی تحفظات کی بدولت یہ تکنیکی بات چیت کسی معاہدے تک منتج نہ ہوئی۔

سنہ 1954 میں عالمی بینک نے تعطل کے حل کے لئے ایک تجویز پیش کی اور چھ سال کی بات چیت کے بعد بالآخر 1960 میں جواہر لعل نہرو اور ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کئے۔

اس معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں اور نہروں کے استعمال کو تقسیم کر دیا۔ پاکستان نے تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کے لیے خصوصی حقوق حاصل کیے تھے۔ اور ہندوستان نے تین مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر اپنا حق برقرار رکھا۔

بھارت پہلے ہی دریائے ستلج پر بھاکڑا ڈیم، دریائے بیاس پر پونگ اور پنڈوا ڈیم اور دریائے راوی پر تھین (رنجیت ساگر) ڈیم سمیت کئی اور ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ بیاس ستلج لنک اور اندرا گاندھی نہر پروجیکٹ جیسے دیگر منصوبوں کی تعمیر سے بھارت مشرقی دریاؤں کے پانی کا تقریباً پورا حصہ (95 فیصد) استعمال کر رہا ہے۔ اور اب دریائے چناب اور جہلم پر دھڑا دھڑ بجلی کے منصوبوں کی آڑ میں ڈیم بناتا جارہا ہے۔

بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔

دوسری طرف پاکستان تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد پانی کا کوئی بڑا ذخیرہ نہیں بنا سکا۔ ہر سال سیلاب کا لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں چلا جاتا ہے۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer