Pani Choos Kowein
پانی چوس کنوئیں
بارش کا پانی صاف ترین پانی ہوتا ہے جسے ہم ذخیرہ کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی بجائے فورا گٹر میں بہا دیتے ہیں اور پھر موٹر چلا کر یا ٹینکر خرید کر اوور ہیڈ ٹینکیاں بھر رہے ہوتے ہیں۔ دو تین ماہ سے بارشیں نہیں ہورہی تھیں، تو ہم مالک سے خشک سالی ختم ہونے کی دعائیں کررہے تھے۔ اب جب بارشیں ہورہی ہیں تو ہم سارے صاف پانی سے گٹر بھر رہے ہیں اور پھر کچھ دن بعدپانی کی کمی ہوگی۔
ہم پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہوں گے، ٹینکر والوں سے پانی خرید رہے ہوں گے، شہروں میں اربن فلڈنگ پر رو رہے ہوں گے یا پھر بلوچستان کی سیلابی ریلوں میں بہہ جانے والے جانوروں اور سامان کی ویڈیوز دیکھ کر افسوس کر رہے ہوں گے، لیکن انفرادی یا اجتماعی سطح پر پانی کے اتنے وافر میسر ہونے والی نعمت کو محفوظ کرکے اس سے فائدہ اُٹھانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے، حالانکہ ہر سال مالک کی یہ نعمت ہم تک پہنچتی ہے۔
ہالینڈ میں ساٹھ کی دہائی میں ایک دفعہ بارش کے پانی سے سیلاب آنے سے ستر کے قریب افراد ہلاک ہوئے، تو وہاں کی حکومت نے عہد کیا کہ آئندہ بارش کے پانی کے سیلاب سے ہالینڈ کا کوئی باشندہ ہلاک نہ ہونے پائے۔ زبردست منصوبہ بندی سے حفاظتی بند تعمیر کئے گئے، جو ہزار سال تک کی بارش والے حجم کے سیلابی پانی سے بچاو کرسکتے تھے اور اس کے بعد سیلاب وہاں کوئی بڑی تباہی نہیں مچا سکے اور تعمیر ہونے والے بند اور ڈیلٹا ورکس دنیا میں ایک مثال بن گئے ہیں۔
ہمارے ہاں ہر سال پانی کی کمی، خشک سالی، طوفانی بارشوں، سیلاب، تباہی، انسانی ہلاکتوں، مکان اور مویشیوں کی ہلاکتوں، بارشوں کے پکوان، ساون کے جھولے، پھر دوبارہ پانی کی کمی، خشک سالی، طوفانی بارشوں کا سائیکل چلتا ہے، لیکن ہم پھر بھی اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے حالانکہ انہی طوفانی بارشوں کے پانیوں کو ذخیرہ کو ہم اپنے لئے بہت بڑے موقع میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ندی نالوں پر بند یا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں بارش سے حاصل ہونے والے میٹھے پانی کا کم ازکم چالیس فی صد ذخیرہ کرنے کے لئے اسٹوریج ڈیم ہونے چاہئیں۔ ہمارے ہاں یہ تناسب ابھی دس فی صد تک بھی نہیں پہنچا۔ جبکہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے پاس اپنی ضروریات کے لئے صرف تیس دن کے پانی کا ذخیرہ ہے۔ جبکہ پڑوسی ہمسایہ ملک کے پاس کم ازکم سو دن پانی، جبکہ ان کی ضروریات بھی ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
ہمارے ہاں انفرادی طور پر گھروں، دفتروں یا اسکولوں میں بھی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے حالانکہ یہ پانی کسی بھی عمارت کی چھت، زمینی ٹینک یا انڈر گراونڈ ٹینک میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ گلی محلے یا سوسائٹی کی سطح پر کسی گراونڈ یا پارک میں بڑے بڑے ٹینک یاڈونگی گرانڈ بنا کر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ان ٹینکوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بارش کے حجم کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔
لہذا ایک اور اہم کام بارش کے پانی کو"پانی چوس"کنوؤں کے ذریعےزمینی پانی میں شامل کرنا بھی ہو سکتا ہے جس سے زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی اور بارش کا پانی بھی ضائع نہیں ہوگا۔ شہری علاقوں میں پارکس، گرین بیلٹس یا گھروں کے لان میں "پانی چوس" کنوئیں بنائے جاسکتے ہیں جو کہ"الٹے فلٹر" کے اصول پر کام کرتے ہوئے بارش کے پانی کو چوس کر زیرزمین پانی سے ملا دیتے ہیں اور وہ بھی اسٹوریج ٹینک سے انتہائی کم لاگت پر، اس سے نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے بلکہ پانی کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی ہے۔
سادہ ترین الفاظ میں ہم بارش کا پانی پہلے ایک کولیکشن ٹینک میں لاتے ہیں تاکہ اس کے اندر مٹی بیٹھ جائے اور پانی نتھر کر کنوئیں کے اوپر موجود دوسرے ٹینک میں آجاتا ہے جس کی تہہ میں فلٹر میٹیرئیل ڈالا گیا ہوتا ہے جس میں سب سے اوپر بڑے پتھر، پھر چھوٹے پتھر، پھر بجری اور ریت وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔ فلٹر کے نیچے کچھ خاص تعداد میں اٹھارہ انچ یا چوبیس انچ کے پائپ ہوتے ہیں جو پانی کو زیرزمین پہنچاتے ہیں۔
پانی چوس کنوئیں وہ کم سے کم کام ہے جو ہم بارش کے کورے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پانی کو ڈیموں یا ٹینکوں میں ذخیرہ کرکے استعمال نہیں کرسکتے تو کم ازکم زمیں میں واپس لوٹا کر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ تو کر سکتے ہیں۔ کیا ہم سب اپنی زندگی میں اپنے حصے کا پانی چوس کنواں نہیں بنا سکتے؟