Motorway Par Pani Ka Ziya Ruk Sakta Hai?
موٹروے پر پانی کا ضیاع رک سکتا ہے؟
جب سے موٹر وے کی نئی تزین و آرائش ہوئی ہے تو باتھ روموں کا کنٹریکٹ پیٹی ٹھیکیداروں تک ٹریکل ڈاؤن ہوتے ہوتے یہ صورت حال ہوگئی ہے، کہ باتھ روم کی اکثر ٹونٹیاں لیک کررہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی ٹونٹی کو زور سے بند کرنے کے لئے خالص دیسی خوراک کھائے ہوئے بندے کے ہاتھ لگ جائیں تو ٹونٹی برائلر مرغی کی گردن کی طرح ہاتھ میں آجاتی ہے۔ اس پر بندہ زور سے "ٹونٹی دی سری " بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ پائپ سے نکلتے پانی سے بھی خود کو بچانا ہوتا ہے۔
انگلش کموڈ اور معذور افراد کے لئے مختص سیٹ کی حالت سب سے بری ہوتی ہے، جہاں کے اکثر مسلم شاور ہر وقت لیک کررہے ہوتے ہیں بلکہ بطورِ سزا لوگ انہیں فرش پر کھڑے پانی میں ہی پھینک کر باہر نکل آتے ہیں کہ انگلش کموڈ کے ساتھ مسلم شاور کا کیا تعلق؟ کچھ لبرل قسم کے لوگ تو دوسرے باتھ روموں سے لوٹا اٹھا کر ادھر لے جاتے ہیں۔ انگلش کموڈ پر لوٹے سے طہارت کرنا ایک ایسا آرٹ ہے جو ابھی تک صرف ہمارے علاقے کے لوگوں کے پاس ہے۔ کچھ خالص لبرل لوگ تو شائد لوٹے کے بغیر استنجے کو بھی مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔ بہرحال لوٹا ایک ایسا برتن ہے جو ہڑپّہ کے زمانے سے پہلے بھی ہمارے ہاں مستعمل رہا ہے۔
اگر آپ کو ایم ٹو موٹروے پر سفر کرنے کا موقع ملا ہو، تو آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کہ پبلک باتھ رومز میں پانی بے تحاشا ضائع کیا جارہا ہوتا ہے۔ باتھ رومز کی عمارت کا سارا فرش گیلا پڑا ہوتا ہے اور واش بیسن پر اکثر لوگ ٹونٹی کھلی چھوڑ کر زلفیں سنوار رہے ہوتے ہیں۔ اس کارِ خیر میں چھوٹی بڑی ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک نوجوان کو اس عمل سے منع کیا تو برخوردار برا منا گئے۔ جب میں نے بڑا ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی ٹونٹی خود بند کی تو ان کے بزرگ بھی ان کی مدد کے لئے میدان ِعمل میں آگئے اور پاکستان کے سیاست دانوں کی کرپشن تک کی مثالیں دے ڈالیں۔ اس دن واقعی میں "ماما" لگا۔
اسی طرح سروس ایریا ز کی مسجد میں چلے جائیں تو وہاں بھی باتھ روموں اور وضو والی جگہ کا فرش ہر وقت پانی سے تر نظر آئے گا، حالانکہ صفائی والا بندہ بھی موجود ہوگا جو کہ داخلے کی جگہ پر وائپر پکڑے نمازیوں کو وی آئی پی سلیوٹ مار رہا ہوگا۔ تاہم باتھ روموں کے فرش پر پانی چھوڑنے کی وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آئی، حالانکہ دنیا بھر میں باتھ روم کو بالکل خشک رکھا جاتا ہے تاکہ بیکٹیریا پرورش نہ پاسکیں اور ہمارے ہاں تو ناپاک پانی کے چھینٹے کپڑوں پر پڑنے سے طہارت کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔
میں نے کئی دفعہ مسجد کے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پلمبنگ کا نیا کام اتنا ناقص ہوا ہے کہ ان لیک ٹونٹیوں سے نکلتے بے قرار پانی کو سنبھالنا اب ان کے ایک وائپر کا کام نہیں رہا۔ لہٰذا وہ اب داخلے کے راستے پر ہی شانت ہوکر نمازیوں کو مفت سلیوٹ مارتے رہتے ہیں۔ یہ سارا ضائع ہونے والا پانی ظاہر ہے پمپ ہوکر آرہا ہوگا جس کی بہر حال اپنی ایک قیمت ہے۔ اگر یہ لوگ پانی کو نعمت سمجھ کر نہیں بچا سکتے تو کم ازکم پیسوں کی بچت اور مشینری کی ریپئر کو کم کرنے کے لئے ہی ان ٹونٹیوں کو ٹھیک کروادیں۔
موٹر وے کے پبلک باتھ رومز اور مسجد کے وضو کے پانی کو ری سائیکل کرکے پودوں اور لان کی گھاس کو لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں جگہوں پر ری چارج ویل یا پانی چوس کنوئیں بنا کر، زیرِزمین پانی کو بھی ری چارج کیا جاسکتا ہے۔ بات احساس کی ہے۔