Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Mojze Aj Bhi Ho Sakte Hain (13)

Mojze Aj Bhi Ho Sakte Hain (13)

معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں(13)

کوئٹہ پہنچ کر یہ خوش خبری ملی کہ پی ایم یو اور محکمہ زراعت کے مابین چپقلش میں محکمہ جیت گیا تھا، اور حکومت نے منصوبے کا کنٹرول ان کو دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جب کہ پی ایم یو کا کردار صرف پالیسی طے کرنے اور مانیٹرنگ تک محدود کر دیا گیا تھا، جو کہ شائد ان کا اصلی کام تھا۔ اسی وجہ سے سیکرٹری صاحب نے ہمیں منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے مشورے کے لئے طلب کر رکھا تھا۔

دو چار دن کے وقفے کے بعد، سیکرٹری صاحب کے دفتر میں ڈائریکٹر جنرل زراعت اچکزئی صاحب، ڈائریکٹر زراعت عبداللہ بلوچ صاحب اور کنسلٹنٹس کی میٹنگ ہوئی۔ جس میں پی ایم یو کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی، مگر وہ بوجوہ شریک نہ ہوئے۔ اس میٹنگ میں ہم نے منصوبے کے کاموں میں ایک سال کی تاخیر پر قابو پانے اور اگلے سالوں کے ٹارگٹ وقت پر مکمل کرنے کے حوالے کھل کر بات کی۔

ہم چونکہ پچھلے اس عرصے میں کافی فیلڈ وزٹ کر چکے تھے اور زمینی حقائق کا جائزہ لے چکے تھے۔ اس لیئے سیکرٹری صاحب کو مشورہ دیا کہ، کسانوں کے بینک اکاونٹ جیسی ناقابل عمل شرط کا متبادل تلاش کیا جائے، اور کھالوں کی بجائے پائپ لائنیں بچھانے کے لئے وفاقی حکومت سے پی سی ون میں ترمیم منظور کروائی جائے۔ تو اس سے نہ صرف لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا بلکہ پراجیکٹ کی پراگریس بھی بہت تیز ہوجائے گی۔ انہوں نے یہ دونوں تجاویز منظور کرلیں۔

دوتین ہفتے دفتری امور میں مصروف کوئٹہ میں ہی گزارے۔ ایک سال سے سست رفتاری سے کام کرنے والے زراعت کے ضلعی افسران، ایک دم برق رفتاری سے کام کرنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ اب منصوبے کا کنٹرول ان کے پاس آگیا تھا۔ اس سے پہلے تو وہ بے دلی سے، پی ایم یو کے ساتھ ہلکی پھلکی موسیقی کر رہے تھے۔ ہمارے دفتر میں ہر ضلع سے اسیکیموں کے ڈیزائن دھڑا دھڑ پہنچنا شروع ہوگئے تھے، جنہیں بروقت وزٹ کرنا اور ان کی تعمیر شروع کروانے کی فزیبیلٹی کی جانچ پڑتال فوری طور پر شروع کرانا بہت ضروری تھا۔

ہمارے پاس وسائل اور وقت کم تھا۔ ہم نے فوری طور پر لورالائی، ژوب اور نوشکی کے کیمپ دفاتر کو قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، جس کے لئے میں پہلے ہی دورے کرچکا تھا۔ تاہم سبّی، ڈیرہ بگٹی اور ڈھا ڈر کے علاقوں کو کور کرنے کے لئے سبّی میں دفتر بنانا ضروری تھا، جس کے لیئے میں نے نکلنے کا ارادہ بنا لیا۔ کوئٹہ سے سبّی کا سفر اتنا دلچسپ، مزے کا ہوگا اس کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ وادی کوئٹہ سے نکلتے ہی، درہ بولان شروع ہوجاتا ہے۔ جہاں پر کو لپور کے مقام پر اس راستے کا سب سے اونچا اور تاریخی ریلوے اسٹیشن ہے۔

اس سے آگے بڑھیں تو درہ بولان کی ریلوے اور روڈ کی سرنگیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اس درے میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے انجنئیرنگ کا شاہکار، سرنگیں بنانا بذات خود ایک کمال لگتا ہے۔ گوروں نے ہر سرنگ کو ایک نام دے رکھا تھا اور اس پر اس نام کے نیچے، اس سرنگ کا سنہ ِتعمیر درج ہوتا ہے۔ ریل اور سڑک کے راستے ایک دوسرے کے گرد لپٹے اوپر نیچے سے گزرتے ہوئے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دریائے بولان پر بینی نانی پل اور ریلوے کا اسٹیل برج، اس ویرانے میں شاہکار لگتے ہیں۔

انہی پہاڑوں میں ایک موڑ پر سرنگ کا نام "ونڈی کارنر windy corner"ہے، جہاں آپ سڑک پر اتر کر کھڑے ہوں تو اس تنگ درے سے ہر وقت گزرتی ہوا آپ کو چھو کر گزرتی ہے۔ اور پھر سڑک کے ساتھ ساتھ دریائے بولان کا وہ حصہ، جس کا نام "آب گم " ہے کیونکہ یہاں دریا کا بہتا پانی زمیں میں گم ہوجاتا ہے، اور کافی آگے جاکر پھر زمین سے باہر آجاتا ہے۔ اسی راستے میں پاکستان ریلوئے کا سب سے زیادہ سلوپ والا سیکشن ہے، جہاں پر گاڑی کو اوپر کھینچنا ایک انجن کے بس کی بات نہیں رہ جاتی۔

اسی لئے "مچھ" کے تاریخی ریلوے اسٹیشن سے ایک تازہ دم انجن، اپنے دوسرے انجن بھائی کو کندھا دینے ٹرین کے ساتھ لگتا ہے جو اسے اونچائی پر پہنچا کر پھر واپس آجاتا ہے۔ مچھ ریلوے اسٹیشن پر اس مقصد کے لیئے ریلوے لائنوں کی ترتیب اور ڈیزائن کچھ ایسے رکھا گیا ہے کہ، اگر اونچائی کی طرف کھینچتے ہوئے انجن کے بریک فیل ہو جائیں، تو تیزی سے پیچھے واپس آتی ٹرین ایک مٹی کے ٹیلے کے اوپر چڑھ کر، آہستہ آہستہ شانت ہوجائے اور مسافر حضرات محفوظ رہیں۔ مشہورِ زمانہ مچھ جیل بھی ادھر ہی ہے۔

مچھ سے آگے نکلیں تو راستہ قدرےکھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑ دائیں بائیں سے دور ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں اور میدانی علاقے کا منظر اور گرم ہوائیں آپ کو سبّی کے آنے کی خبر دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈھا ڈر کا خوب صورت علاقہ بھی ہے۔ سبّی کو پاکستان کا گرم ترین مقام ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، اور یہاں کا روایتی جشن بہاراں اور میلہ مویشیاں بھی مشہور رہا ہے۔ سبّی میں داخل ہوتے ہی ایک خوب صورت چھوٹے سے شانت شہر کا تاثر ابھرتا ہے، جس کے مرکزی بازار میں دو بھائیوں کی مشہور "اچار اور مربے" کی دکان ہے۔

Check Also

Ye Bacha Kis Ka Hai?

By Rehmat Aziz Khan