Miliye Mere Hero Se
ملیے میرے ہیرو سے
میرے سب سے بڑے ہیرو اور سب سے اہم مشیر وہی تھے۔ زندگی کی ہر آزمائش میں وہ میرے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ وہ وقت بھی آیا جب میرے ساتھ اگر کوئی ایک شخص کھڑا ہوا تو وہ میرے ہیرو ہی تھے۔ انہوں نے چند ایک کڑے وقتوں میں مجھے اسپورٹ کیا جیسے۔۔
1- زرعی زمین خریدنے کی بجائے اپنی ساری جمع پونجی مجھے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے دے دی۔
2- یو ای ٹی لاہور کے میرٹ میں ٹاپ پر ہونے کے باوجود میں نے الیکٹریکل انجنئیرنگ کی بجائے اس سے نچلے میرٹ والی سول انجنئیرنگ میں داخلہ لینے کو ترجیح دی۔ انہوں نے میری اس بظاہراًبے تُکی خواہش کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
3-دیہاتی بیک گراونڈ کی وجہ سے 17 سکیل کی گزیٹیڈسرکاری نوکری سے جڑے رہنے کے لئے مجھ پر خاندان کے ہر فرد کا دباو تھا۔ سرکار کی پکی نوکری چھوڑ کر پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے کے میرے ناسمجھ آنے والے فیصلے کو صرف انہوں نے سپورٹ کیا۔
سادگی ان کا لباس تھا اور مطالعہ اوڑھنا بچھونا۔ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ۔ انہوں نے اس دور میں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے کیا جب لوگ نام کے ساتھ باقاعدہ BA لکھتے تھے۔ ان کے سب بچوں نے بھی ایک عام سے قصبے سے اٹھ کرپوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ سکول یونیورسٹی اور کالج میں وظیفہ لیا اور اعزاز کے ساتھ تعلیمی سفر مکمل کئے۔
مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی جان بوجھ کر کسی کو تکلیف دی ہو یا کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوئے ہوں۔ وہ اتنے خوش مزاج تھے کہ ان کے بچوں کے دوست بھی ان کے ساتھ گھنٹوں کھل کر گپ شپ کرلیتے تھے۔
وہ کھانے پینے کے بے حد شوقین تھے اور زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو بڑا بنا کر ان کا بھر پور مزہ لیتے۔ ساری زندگی نہ کسی پر بوجھ بنے اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر بوجھ بننے دیا۔ چلتے پھرتے اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔
اپنے انتہائی محدود وسائل کے باوجود بچوں کو کبھی احساس محرومی نہ ہونے دیا۔ والدین کی تا زندگی خدمت میں مصروف رہے۔ اپنی ضعیف والدہ کی خدمت کے لئے ملازمت سے وقت سے آٹھ سال پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور ان کی بھر پور خدمت کی۔
میری خوش قسمتی کہ ان کی زندگی کی آخری رات بھی گاوں سے میرے پاس لاہور آکر میرے ساتھ گپ شپ کرتے گزری۔ آج کوئٹہ سے واپسی کے سفر میں چند وجوہات کی بنا پر والد بزرگوار بہت یاد آئے۔ احباب سے درخواست ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں۔