Maa Ji (2)
ماں جی (2)
رات ماں جی کا بلڈ پریشر چیک کرکے فارغ ہوا تو پتہ چلا کہ دوران چیکنگ ہی وہ سو چکی ہیں۔ ماں جی کو لاہور شفٹ ہوئے دس دن ہو گئے ہیں اور اِن آمد ہمارے شہری لائف سٹائل میں ایک زبردست تبدیلی لائی ہے۔ میرے دن کی ترتیب بہت بدل چکی ہے۔ نیند سے جاگنے کا آخری وقت صبح کے 4 بجے ہے۔ اس سے دیر ہوجائے تو بیڈروم کے دروازے پر دستک ہو جاتی ہے۔
نماز اور ذکر سے فارغ ہوکر وہ پھل کے جوس کا ایک گلاس لیتی ہیں اور پھر ہم ماں بیٹا سامنے والے پارک میں سیر کو چلے جاتے ہیں۔ میں راستے میں موتیے کے پودے سے کچھ پھول توڑ کر انہیں دیتا ہوں جسے وہ سارا دن اپنے کمرے میں رکھتی ہیں لیکن تین سے زیادہ پھول توڑنے پر ڈانٹ پڑتی ہے۔
سیر سے واپسی پر مجھے پودوں کو پانی لگانے کا حکم ملتا ہے اور خود وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔ دفتری معاملات کا پوچھتی ہیں۔ کوئی خاص میٹنگ یا اہم نوعیت کا مسئلہ ہوتو دُعا دیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر تلاوت شروع کرتی ہیں اور مجھے آرڈر ہے کہ سونے کی بجائے دفتر جانے کی تیاری کرو یا دفتر کا کام کرلو۔
ان کے آنے سے ہمارے گھر کی رونق ایک دم بڑھ گئی ہے۔ میرے چھوٹے بھائی اور ان کی فیملیز ان کا پتہ کرنے آتی رہتی ہیں۔ دوست احباب بھی ان سے ملنے اور دعائیں لینے چلے آتے ہیں۔
اسی طرح شام کی ترتیب بھی بہت بدلی ہے۔ ماں جی شام چھ بجے سے اپنے دن کو ختم کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ شام کی دوائیوں کی ترتیب شروع ہوجاتی ہے۔
مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ڈنر کرلیتی ہیں اور اپنے دوسرےبچے بچیوں کو فون کرتی ہیں جس میں بلحاظِ عمر میرٹ پر ہر کسی کو ایک دفعہ کال ضرور ملاتی ہیں خصوصاً بیٹیوں سے ضرور بات کرتی ہیں۔
نمازِ عشا پڑھتے ہی سونے کی ترتیب ہے۔ ان کی عادت خراب کرنے کے لیے میں نے نمازِ عشا کے بعد ان کے پاس بیٹھنا شروع کیا ہےاور ان کے بچپن، شادی اور ان کی سہیلیوں کی باتیں کرتا ہوں مگر وہ میرا ارادہ بھانپ چکی ہیں اور آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں دیتیں بلکہ اکثر باتوں کے دوران سوجاتی ہیں۔
کل میں اِن سے پوچھ بیٹھا کہ آپ لاہور شفٹ ہوکر خوش ہیں تو بولیں کہ بیٹا عورت کے لئے بچپن میں باپ کا گھر، جوانی میں شوہر کا گھر اور بڑھاپے میں بیٹے کا گھر ہی اپنا گھر ہوتا ہے۔ میں یہاں پر بہت خوش ہوں۔
ان کی صحت کی بحالی کے لئے احباب دعا کریں۔