Jannat Se Aayi Sui
جنت سے آئی سوئی
چاچا دوسنڑ ریلوے کے آہنی واٹر ٹینک کے نیچے بان کی منجی پر قمیض اتارے سویا ہوا تھا ،جب میں اس کے بیٹے کے ساتھ دیسی گھی سے چوپڑی موٹی تندوری روٹیوں کے ساتھ بینگن کا بھرتا لے کر اسے دوپہر کا کھانا پہنچانے آیا تھا۔ اس کے بیٹے نے لسی والی گڑوی اٹھا رکھی تھی۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ لوہے کی دیوہیکل پانی سے بھری ٹینکی چاچا پر ہی نہ گر جائے لیکن وہ اس کے قریب مزے سے چارپائی پرلیٹا ہوا تھا۔
ہمارا گھر پرانے شہر میں تھا جہاں سے کندیاں ریلوےجنکشن کوئی ڈیڑھ کلومیٹر دور مین بازار کے اس پار تھا۔ اس وقت کی معاشرتی روایات کے مطابق ،پرانے شہر کا رہائشی کم عمر بچہ اگر قصبے کے چھوٹے سے بازار میں کسی جاننے والے کو نظر آجاتا تو اسے خوب پھینٹی پڑتی۔ تاہم میں چاچا دوسنڑ کو روٹی پہنچانے کے بہانے اس کے بیٹے کے ساتھ کبھی کبھار بازار کا چکر لگا لیتا اور واپسی پر صدیقی بازار سے ٹھیلے والے سے چنا چارٹ اور گول گپے کھاتا۔ یہی ہمارا چل ٹائم ہوتا۔
ہم چاچا کو روٹی پکڑا کر ریلوے لائنوں میں کھیلنے لگ جاتے اور پھر خالی برتن کڑھائی والے پونے میں باندھ کر واپس صدیقی بازار ٹھیلے پر پہنچ جاتے۔ جب کہ چاچا کی تاکید ہوتی کہ سیدھا گھر واپس جانا ہے اور بازار والے رستے کی بجائے "سوڑی گلی" سے جانا ہے جو کہ قیام ِپاکستان سے پہلے شائد ہندوؤں کا محلہ ہوا کرتا تھا۔ایک دن میں نے چاچا سے بڑی سادگی سے پوچھا کہ آپ کی ڈیوٹی اس پانی کی ٹینکی کے نیچے منجی پر سونا ہے کیا؟ اور آپ دوپہر کا کھانا آخر گھر آکر کیوں نہیں کھاتے؟
چاچا بہت ہنسے اور مجھے بازو سے پکڑ کر ٹینکی سے تھوڑا دور لے گئے اور ٹینکی کی طرف اوپر دیکھنے کو کہا جہاں سفید اور کالے پینٹ سے ایک بہت بڑا پیمانہ لگا ہوا تھااور اس کے اوپر ایک بڑی سی سوئی نظر آرہی تھی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ
"پترا میں اس جنت سے آئی اس سوئی کا غلام ہوں اور یہ مجھے آرڈر دیتی ہے"۔
سب سے اوپر والی لائن مخلوق کی لائن ہے ،جب سوئی اس کے قریب پہنچتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹینکی خالی ہونے کے قریب ہے۔ میں جلدی جلدی پمپ چلا دیتا ہوں تاکہ ریلوے اسٹیشن، دفاتر اور کالونی کے سارے مکینوں کو بروقت پانی ملتا رہے اور کوئی مجھے بد دعا نہ دے۔سب سے نیچے والی لائن مالک کی ہے۔ جب سوئی اس کے قریب پہنچتی ہے تو اس کا مطلب ہے ٹینکی بھرنے والی ہے۔ میں جلدی سے پمپ بند کرتا ہوں تاکہ پانی اوور فلُو ہوکر ضائع نہ ہواور مالک مجھ سے قیامت کے دن نعمت ضائع کرنے پر ناراض نہ ہو۔
خالق اور مخلوق کا ڈر ہی مجھے ہر وقت اس چارپائی سے چمکائے رکھتا ہے اور میں ادھر موجود رہتا ہوں اور ان سوئیوں پر سارا دن نظر رکھتا ہوں اور پھر مجھے اس کام کی تنخواہ بھی تو ملتی ہے،مجھے اس وقت چاچا کی باتیں کچھ سمجھ نہ آئیں لیکن اس کے بعد جب بھی میں وہاں سے گزرتا چاچا کو کنٹرول کرنے والی جنت سے آئی اس سوئی کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا۔ چاچا نے پورے پینتیس چالیس سال نوکری کی اور خالق اور مخلوق سے ڈر کر کی۔ صحت مند عمر کے اسی سال پورے کئے۔ الحمدللّٰہ ان کی اولاد اب مطمئن زندگیاں گزار رہی ہے۔
آج اس ٹینکی پر پینٹ شدہ پیمانہ مٹ چکا ہے۔ اسے کسی نے دوبارہ پینٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خالق اور مخلوق سے ڈرنے والے اپنے مالک کے حضور پہنچ چکے۔ اب اس ٹینکی کے نیچے بان کی منجی بھی نظر نہیں آتی۔ اب، خالق اور مخلوق، شائد دونوں ناراض نظر آتے ہیں۔ تبھی تو ہردم آباد رہنے والا یہ ریلوے جنکشن ویران ہوچکا ہے۔ ٹرینیں بند ہو چکیں۔ ٹی اسٹال بند ہو گئے۔
یہ ٹینکی اب اکثر اوور فلُو ہورہی ہوتی ہے۔ یہ مالک کی ناراضگی کی ایک مستقل وجہ بن چکی ہے۔ آج ہمدم دیرینہ امجد ہاشمی نے صبح سویرے کندیاں سے شکایتی پیغام بجھوایا کہ آپ پورے ملک کی لیک ٹوٹیاں بند کروانے پر لگے رہتے ہو تو یہاں تو پورا ٹینک ہروقت اوور فلُو ہورہا ہوتا ہے اس کا کیا حل ہے؟ یہاں تو گھر میں نقب لگ چکی ہے۔ ان کی دردمندی سے بھری پوسٹ پڑھنے کے لئے انیں نیچے ٹیگ کر رہا ہوں کہ شائد کسی کو مالک کو راضی کرنے کا خیال آجائے۔