Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Imran Durani

Imran Durani

عمران درانی

آج عمران درانی صاحب کی تیسری برسی تھی۔ وہ دس سال تک سو ڈیم منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رہے۔ درانی صاحب جیسے محنتی اور بے باک انسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ بلوچستان کے اس بہادر بیٹے کی زندگی میں ان کی صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف نہ ہو سکا۔

درانی صاحب ہمیشہ ہر قدم پر ہمارے ساتھ رہے اور ان کا رویہ ہمیشہ سادہ اور بے تکلف تھا، یہاں تک کہ ایک بار ایک مشکل ٹاسک مکمل ہونے پر انہوں نے ہماری پوری ٹیم (20 سے زائد افراد) کو ذاتی خرچ پر پشین کے مشہور اری گیشن ریسٹ ہاؤس میں کھانے پر مدعو کیا۔ یہی ان کی عظمت کی دلیل تھی کہ وہ اپنے عملے کے ساتھ ایک خاندان کی طرح پیش آتے تھے۔

ان کی صاف گوئی اور بے باکی نے دورانِ ملازمت کئی دفعہ انہیں مشکلات سے دوچار بھی کیا، لیکن وہ کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ چیف سیکرٹری بلوچستان کے ساتھ میٹنگ میں جب منصوبے کے پی سی ون میں غیر ضروری کٹوتی ہو رہی تھی تو درانی صاحب نے احتجاجاً میٹنگ چھوڑ دی، جس پر اعلیٰ حکام کو ان سے معذرت کرنا پڑی۔

ان کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ایک ڈیم سائٹ کا دورہ کر رہے تھے اور گاڑی پتھریلی ندی میں پھنس گئی۔

یہ تقریباً دس سال پہلے کی بات ہے جب اچانک ایک دن ہمیں ایک ڈیم سائٹ کے دورے کا حکم شمالی بلوچستان کے اس علاقے کے لئے ملا جہاں پاکستانی اسٹوڈنٹس نے اپنا اثر ورسوخ بڑھایا ہوا تھا اور علاقہ سرکار کے لئے نو گو ایریا بنتا جارہا تھا۔ مختصر سی ٹیم پی ڈی عمران درانی صاحب کی قیادت میں صبح سویرے کوئٹہ سے روانہ ہوئی اور چھ سات گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد سائٹ جانے والے کچے راستے پر مڑ گئی۔ ایک پتھریلے پہاڑی نالے کو عبور کرتے ہوئے گاڑی خراب ہوئی اور وہیں کیچڑ میں پھنس گئی۔

ڈرائیور کے ساتھ کچھ لوگ مل کر گاڑی نالے سے نکالنے میں جُت گئے جب کہ درانی صاحب نے ڈالے میں رکھے تربوز اتارے انہیں نالے کے پانی میں یخ کیا اور ایک چٹان کے سائے میں آکر کاٹنے لگے۔ اچانک پچھلی طرف سے دو مسلح اسٹوڈنٹ نمودار ہوئے اور انہیں کھڑا ہونے کو کہا۔ درانی صاحب اتنی دیر میں تربوز پرچھری چلا چکے تھے۔ انہوں نے تربوزکاٹ کر بڑے اعتماد سے اس پر نمک لگاتے ہوئے ایک اسٹوڈنٹ کو پکڑاتے ہوئے پشتو میں کہا کہ اسے ختم کرو پھر چلتے ہیں۔ دور نالے میں مصروف ٹیم کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ درانی صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

درانی صاحب نے تربوز کا دوسرا ٹکڑا نمک لگا کر دوسرے سٹوڈنٹ کو دیا اور خود بھی کھانے لگے۔ اس سے فارغ ہو کر جب اسٹوڈنٹس نے انہیں ہینڈزاپ کرکے ساتھ چلنے کو کہا تو درانی صاحب نے کہا کہ "کہاں؟ اب تو تم نے میرا نمک کھا لیا ہے۔ کیا نمک حلال نہیں کرو گے؟"

دونوں اسٹوڈنٹس نے غصے سے انہیں دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا کہ آگے بڑھنے کی بجائے فوراً یہاں سے کوئٹہ واپس چلے جاؤ اور پھر پہاڑ کے پیچھے غائب ہوگئے۔ دوسری ٹیم جب گاڑی ٹھیک کرچکی تو درانی صاحب نے کوئٹہ واپسی کا کہا اور راستے میں کچھ نہیں بتایا کہ آج ان کی حاضر دماغی اور دلیری کی وجہ سے ٹیم بال بال بچ گئی تھی۔

درانی صاحب کی موت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔

Check Also

Gold Jiska Hai, Wo Bhi Hamara Larka Hai

By Asif Masood