Engineers Mina Mein
انجینیئرز منیٰ میں
حج کا دوسرا دن تھا اور ہم منیٰ کی مرکزی شاہراہ پر کھڑے اس ادھیڑ عمر پاکستانی جوڑے کو پریشانی اور خوف کے عالم میں آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ہم نے ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ پہلے تو وہ ہم سے کچھ گھبرائے لیکن ہمارے اصرار پر خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ کل رات سے راستہ بھولے ہوئے ہیں اور انہیں اپنا خیمہ نہیں مل رہا۔ اگر ہم ان کو ان کے خیمے تک پہنچانے میں کچھ مدد کر دیں تو وہ ہمارے شکر گزار ہوں گے۔
اس وقت تک گوگل میپ نہیں آیا تھا اور سمارٹ فون بھی اتنا سمارٹ نہیں ہوا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ایک جیسے خیموں میں اپنا خیمہ تلاش کرنا بعض لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی مصیبت تھا۔ بہت بڑی تعداد میں پاکستانی حجاج خصوصاْ اپنے گروپ سے بچھڑ جانے والے لوگ اپنے خیمے تک مشکل سے واپس پہنچ پاتے۔
ہم نے پہلے دن ہی پاکستانی حج مشن کے منیٰ میں کیمپ سے منٰی کے خیموں کا لے آوٹ میپ لے لیا تھا اور اپنی سول انجینیئرنگ کی سمجھ بوجھ کو کام میں لاتے نہ صرف خود اپنے خیمے تک با آسانی پہنچ جاتے بلکہ دوسرے حجاج کی بھی مدد کرتے۔ ہم اپنے آفس سے تین سول انجینیئر دوست اکٹھے ہی حج کے لئے آئے ہوئے تھے اور منیٰ کے قیام کے دوران فارغ وقت میں راستہ بھولے حجاج کی نقشے کی مدد سے ان کے خیموں تک راہنمائی کرتے رہتے۔
بہرحال اس جوڑے کا خیمہ مین روڈ کے پاس ہی تھا اور ہم انہیں دو تین منٹ میں ہی منزلِ مقصود پر لے گئے۔ اپنی رہائش پر پہنچتے ہی رات بھر منیٰ میں بھٹکنے والی خاتون شوہر پر پھٹ پڑی۔۔
"لخ دی لعنت تیری سول انجینیئرنگ تے۔ ساری رات ہم خیمے کے سامنے گزرتے رہے اور خوار ہو گئے مگر اس نالائق انجینیئر کو خیمہ نہ مل سکا جب کہ ان عام سے لڑکوں نے دو منٹ میں تلاش کر لیا۔ میں تو سات پشتوں تک وصیت کر جاؤں گی کہ اپنے بچوں کو سب کچھ بنانا سول انجینیئر نہ بنانا۔۔ پپنجابی سے سنسر شدہ ترجمہ"
پتہ چلا کہ حاجی صاحب سول انجینیئر ہیں اور ایل ڈی اے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ہم تینوں دوست اب تک اس تبصرے سے محظوظ ہوتے ہیں۔