Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Aslam Sahib

Aslam Sahib

اسلم صاحب

سر آئزک نیوٹن سے پہلا تعارف اسلم صاحب نے ہی کرایا تھا۔ سفید شلوار قمیض پہنے سکول کے صحن میں ٹاہلی کے سائے میں بید کی کرسی پر بیٹھ کر یوں تو وہ نیوٹن کے قوانینِ حرکت پڑھا رہے ہوتے تھے لیکن لیکچر میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہی نیوٹن کے متعلق بہت سی دلچسپ لیکن غیر نصابی باتیں بھی طلبا کو سرائیکی میں بتاتے مثلاً:

نیوٹن کا اپنی بیوی سے جھگڑا کیسے ہوتا تھا یا پھر نیوٹن کے سر پر واقعی کوئی سیب گرا تھا؟

ان کے سامنے ریتلی زمین پر بیٹھے ہم چالیس پچاس قصباتی بچے حیرت اور دلچسپی سے ان کی باتیں سُن رہے ہوتے۔ سنہ 80 کی دہائی کے کندیاں قصبے میں سائنس کی عالمی برادری سے وہ ہمارا واحد رابطہ تھے۔ ان کے دلچسپ اندازِتدریس سے طلبہ ان کے فرشی کلاس روم میں کھینچے چلے آتے۔

انگلش کے ٹیچر حاجی صاحب نے جب طلبہ کی سائنس کے مضامین میں حد سے زیادہ دلچسپی اور انگلش کی کلاسوں سے بڑھتی ہوئی غیر حاضری دیکھی تو ایک دن پوری کلاس کو اسٹیج (سکول کے صحن میں بنایا گیا چبوترہ)پر کان پکڑواکر مولابخش سے ٹکور کی تاکہ پورا سکول دیکھ لے۔ یہ کُندیاں ہائی سکول کی "کیپیٹل پنشمنٹ "تھی۔ تاہم اسلم صاحب کی کلاسز میں فرش توڑ رش بدستور جاری رہا۔

کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ اسلم صاحب کا ٹرانسفر اپنے آبائی علاقے پپلاں کے ہائی سکول میں ہوگیا ہے تو طلبا کا دل بجھ سا گیا۔ ان کے شاگرد بہت اُداس تھے کہ اب ہمیں سائنس جیسا خُشک مضمون اتنے دلچسپ طریقے سے کون پڑھائے گا؟ کچھ طلبا نے تو پپلاں ہائی سکول کے بند ہونے کی باقاعدہ دُعا بھی کی جس پر پوری کلاس نے آمین کہا لیکن اسلم صاحب بہت خوش تھے کیونکہ وہ اپنے شہر پپلاں جارہے تھے۔

آج چالیس سال بعد میں پپلاں شہر کے ہائی سکول میں کھڑا ہوں کہ جسے اپنا روایتی نام سرسید ہائی سکول برقرار رکھنے کے لئے کافی جتن کرنا پڑے تو اچانک اسلم صاحب یاد آگئے۔ پرنسپل صاحب سے اسلم صاحب کا ذِکر کیا تو بھی سر اسلم کے شاگرد نِکلے۔

سکول یونیفارم میں کھیلتے بھاگتے طلبا، پھر گھنٹے کی آواز، سکول کی اسمبلی، تلاوت، قومی ترانہ اور پھر پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے، طلبہ کی قطاروں میں کلاسوں میں واپسی دیکھتے ہوئے وقت اور جگہ کا احساس ہی نہ رہا۔

سکول کا پرنسپل آفس پرانے دور کے ڈاک بنگلہ میں قائم ہے جو کہ فرنگی دور کے خوب صورت طرزِتعمیر کی یاد دلاتا ہے۔ اس کے اردگرد سبزے کی بہار ہے اور دیواروں جا بہ جا اقوالِ زریں اور سینریاں بنی ہوئی ہیں۔

تحصیل ہیڈکوارٹر کے اس ہائی سکول میں نہ جانے کتنے نامور افراد نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہوگی لیکن سر اسلم جیسا استاد شاید کم کم ہی مِلے۔

Check Also

Quaid e Azam Ki Mehbooba

By Muhammad Yousaf