Ustad Roshni Ka Sipahi
استاد روشنی کا سپاہی
استاد ایک سپاہی کی مانند ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کو جینے کا ڈھنگ سیکھاتا ہے۔ استاد ایک راہنما، مرشد اور دوست ہوتا ہے جو طلباء کو روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن آج کے ہمارے اس اپڈیٹڈ معاشرے میں جس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ استاد بننے کو ترجی دیتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ استاد بننا بہت معمولی سی بات ہے۔ آپ کبھی بھی اور کسی بھی وقت بن سکتے ہیں۔ تو جناب اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ کو اپنی سوچ کا معیار بدلنا چاہیے۔ کیونکہ ٹیچنگ ایک مشکل ترین پروفیشن ہے۔
استاد تو قوموں کا مستقبل بدلتے ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا جب ماں باپ اساتذہ کا کہا حرفِ آخر سمجھتے تھے اپنی اولاد کی بہترین پرورش کے لئے۔ لیکن آج ہماری سوچ بدل گئی ہے۔ ہم ماڈرن ہوگئے ہیں۔ آج اسکول میں استاد صاحب کو ہم اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے بچے پر سختی کریں، ہاتھ اٹھائیں یا اُونچی آواز میں بات کریں کیونکہ ہمارے بچوں کی ای گو ہارٹ ہوجاتی ہے اور دوسری طرف ہم اپنے بچوں کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ بیٹا ہم اسکول میں پیسے دیتے ہیں ہاتھ تو لگائے کوئی کسی کی اتنی جرت نہیں یا اگر ٹیچر نے کچھ کہا تو میں دیکھ لو گی۔
بتائیں آج جس بچے کا ہم ایسا مائنڈ سیٹ کریں گے تو کل یہی بچہ ہمارے بڑھاپے میں کیسے ہمارا سہارا بنے گا، جب ہماری خود کی تربیت کا معیار یہ ہوگا۔ بچے کی مثال تو پھل دار درخت کی سی ہے۔ جس کا بیج بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اسی پر درخت کے پھل کا دارومدار ہے۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے آج کیوں ہمارے معاشرے میں اولڈ ہومز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ سب تو مغربی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کیوں کہ ہماری پرورش میں کمی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو بڑے بڑے اسکولوں میں بھیج کر، ٹیوٹرز گھروں پر لگوا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ تو یہ ہی ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کو ہم جتنا جلدی ہو دور کر لیں تو ہمارے لئے بہتر ہوگااور ہمارے بچے ای گو، خوش فہمی، پرائیوسی جیسی دیمک سے بچ جائیں گے۔
ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دینی ہے۔ جب ہم خود استاد کی عظمت کو تسلیم کریں گے۔ اپنے بچوں کو یہ سمجھائیں گے کہ معلم کا کیا رتبہ ہے اسلام میں۔ اساتذہ تو روحانی والدین ہوتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹرز، انجئنیرز، سائنسدان، آفسران، وغیرہ سب اساتذہ کے زِیر سایہ رہ کر آج اتنی دنیا میں عزت اور شہرت حاصل کر پائے ہیں۔ بچوں کی کامیابی پر اگر ماں باپ خوش ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان کے اساتذہ کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ایک مخلص رشتہ ہے اور یہ بھی ایک کڑوہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے کم آمدنی اساتذہ کی ہی ہے۔
آج کل کے والدین بچوں کو بہت پیمپر کرکے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے بچوں میں اگریشن، ڈیپریشن اُو-ور کونفڈینس بڑھتا جا رہا ہے۔ جو ہمارے بچوں کی شخصیت کو بری طرح تباہ کر رہیں ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بہت دیر سے ہوتا ہے۔ ہم وہ آخری جنریشن ہیں جن کو آج بھی اگر استاد صاحب دور سے آتے نظر آجائیں تو ہم ان کو سلام کرنےکے لیے ان کی طرف لپکتے ہیں۔ غلاموں کی طرح اپنے اساتذہ کے سامنے سر جھکا کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن آج کا شاگرد استاد کو اگر کہیں دیکھ لے تو سلام تو دور کی بات وہ رستہ بدل لیتا ہے۔
ہمارے نوجوان نسل کو اخلاقی تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہم اپنے بچوں کو انگریز بنانے کے چکروں میں اپنے اطوار، مذہب، تہذیب سے دور کرتے جا رہے ہیں۔ آج ہمیں ہمارے بچوں کو دوستوں کی طرح ساتھ رہ کر گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ والد ین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں ان کی باتوں کو سنے۔ اپنا سارے فارغ اوقات دوستوں میں ضائع کرنے سے بہتر ہے۔ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ ان کی بہترین تربیت کو اپنا اولین مقصد جانیں۔ تاکہ کل جب ہم اس دنیا سے چلے جائیں تو لوگ ہمیں ہمارے بچوں کی بہترین تربیت، اور اعلیٰ اخلاق سے جانیں اور اپنی دعاوں کا حصہ بنائیں۔